عمر شاہد حامد کی کہانیاں، حقیقت یا فکشن؟
پچھلی کئی دہائیوں سے کراچی دنیا کے پرتشدد ترین شہروں میں سے ایک رہا ہے، اس شہر میں کبھی لوگ فرقہ وارانہ حملوں، کبھی بم دھماکوں اور کبھی سیاست کے نام پر موت کے گھاٹ اتارے جاتے رہے ہیں، یہ سب واقعات ٹی وی اور اخبارات پر رپورٹ ہوتے رہے ہیں لیکن اس شہر میں ایسی بھی حساس نوعیت کی کہانیاں موجود ہیں جن کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے منسلک شخصیات بھی بات کرنے سے کتراتی ہیں۔
عمر شاہد حامد کراچی پولیس میں پچھلی دو دہائیوں سے کام کررہے ہیں اور اس وقت بحیثیت ڈی آئی جی فرائض انجام دے رہے ہیں، یہ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے جرائم سے منسلک وہ کہانیاں لکھیں جو پہلے کبھی نہیں سنی گئیں تھیں، لیکن ان کہانیوں کو سنانے کیلئے عمر شاہد حامد فکشن کا سہارا لیتے ہیں۔
سماء ڈیجیٹل سے گفتگو میں عمر شاہد حامد کا کہنا تھا کہ ’’جو چیزیں میں نے لکھی ہیں وہ اس کا 10 فیصد بھی نہیں جو حقیقت میں ہوتا رہا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’میں نے کیریئر میں اپنے ساتھیوں سے جو کہانیاں سنی ہیں وہ حقیقت میں کسی بھی ناول سے زیادہ سنسنی خیز ہیں‘‘۔
عمر شاہد حامد گزشتہ 6 سالوں میں چار کتابیں لکھ چکے ہیں، ان کی کتابوں کے کردار اکثر حقیقی لگتے ہیں، یہ شاید اس وجہ سے ہے کہ عمر نے انسداد دہشتگردی ڈپارٹمنٹ میں رہتے ہوئے جہادی اور جرائم پیشہ نیٹ ورک کو انتہائی قریب سے دیکھا ہے۔
انہوں نے اپنے کیریئر میں القاعدہ اور تحریک طالبان جیسی کئی دہشتگرد تنظیموں کیخلاف آپریشن میں حصہ لیا اور اسی وجہ سے انہیں 2011ء میں پاکستان چھوڑنا پڑا۔ نومبر 2010ء میں سینٹرل انویسٹی گیشن (موجودہ سی ٹی ڈی) کے کراچی آفس پر حملے میں 20 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
عمر شاہد حامد کہتے ہیں کہ انہوں نے 5 سال پاکستان سے باہر گزارے، کہتے ہیں کہ ’’جانے سے پہلے میں سی آئی ڈی میں تعینات تھا، ہمارے کئی آپریشن طالبان اور القاعدہ جیسی تنظیموں کیخلاف ہوتے تھے، اس لئے ہمیں خطرات بھی تھے‘‘۔
عمر شاہد حامد کے پاکستان چھوڑنے کے چند ماہ بعد چوہدری اسلم کے کراچی میں گھر کے باہر ایک کار بم دھماکا ہوا جس میں 8 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور پھر 2014ء میں چوہدری اسلم خود لیاری ایکسپریس وے پر ایک خودکش حملے میں جاں بحق ہوگئے۔
عمر شاہد حامد نے ناول لکھنے کی شروعات بیرون ملک قیام کے دوران کی، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے لکھنا اس لئے شروع کیا کیونکہ پولیس والوں کے پاس کئی کہانیاں ہوتی تھیں لیکن ان کہانیوں کو عوام کے سامنے لانے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔
ان کی تیسری کتاب ’’دی پارٹی ورکر‘‘ ایک ایسی سیاسی جماعت کے حوالے سے تھی جو کراچی شہر میں اپنا ہولڈ برقرار رکھنے کیلئے تشدد کا استعمال کرتی تھی اور نوجوانوں کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی تھی۔ یہ کتاب ہے تو فکشن لیکن کراچی میں کام کرنیوالے کسی بھی صحافی سے پوچھیں تو وہ بتادے گا کہ اس کتاب میں جس سیاسی جماعت کا ذکر ہے ویسی ہی ایک سیاسی جماعت حقیقت میں وجود رکھتی ہے۔
عمر شاہد حامد کہتے ہیں کہ وہ کہانیاں جو اخباروں میں چھپتی ہیں اور ٹی وی پر دکھائی جاتی ہیں ان کا اثر سب پر پڑتا ہے اور ہر مصنف کی کہانیوں کی شروعات ایسے ہی واقعات سے ہوتی ہے۔
ان کی کتاب ’’دی پارٹی ورکر‘‘ میں جس پیشہ ور قاتل کا ذکر ہے یہ کردار متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے صولت مرزا سے مماثلت رکھتا ہے۔ یہ وہی صولت مرزا ہے جسے عمر شاہد حامد کے والد شاہد حامد کے قتل کے جرم میں 2015ء میں بلوچستان کی مچھ جیل میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔
پاکستان میں دہشتگرد تنظیموں پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ کس طرح اس ملک میں کبھی سیاست اور کبھی فرقہ واریت کے نام پر نوجوانوں اور خواتین کی ذہن سازی کی جاتی رہی ہے اور ان کو پُرتشدد کارروائیوں میں استعمال کیا جاتا رہا ہے، لیکن عمر شاہد حامد کہتے ہیں کہ آج کے دور میں نوجوانوں کو تشدد کی راہ پر ڈالنا اتنا آسان نہیں۔
سینئر پولیس افسر کہتے ہیں کہ آج کے نوجوان ’’سیانے‘‘ ہوچکے ہیں، سوالات کرنے لگے ہیں اور یہ سب سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کے عام ہونے کے بعد ہوا ہے۔
مختلف جرائم پر تین کتابیں لکھنے کے بعد عمر شاہد حامد کی نئی کتاب ’’دی فکس‘‘ کرکٹ میں ہونے والی کرپشن کے حوالے سے ہے۔ انہوں نے کبھی کرکٹ میں ہونیوالی کرپشن پر تفتیش تو نہیں کی لیکن ایک پولیس افسر ہونے کی حیثیت سے سٹے بازوں اور جوئے خانوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ کہانی ایک ناول کیلئے اچھی کہانی جسے کبھی نہیں سنایا گیا۔ ’’کسی بھی اچھے کرمنل کیس، قتل اور ڈکیتی کے کیس کی طرح اس کہانی میں بھی تمام عوامل موجود ہیں‘‘۔
پچھلی چند دہائیوں میں میچ فکسنگ کے دو، تین بڑے واقعات رونما ہوئے جن کا اثر ناصرف پاکستانی بلکہ غیرملکی کرکٹرز پر بھی پڑتا رہا ہے اور ان اسکینڈلز میں بین الاقوامی گینگسٹرز بھی ملوث رہے ہیں۔
عمر شاہد حامد کہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ ٹرینڈ ہے کہ جب ٹیم ہارتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ کھلاڑی بک گئے ہیں اور وہی ٹیم جب جیتتی ہے تو انہی کھلاڑیوں کو ہیرو بنادیا جاتا ہے۔
عمر شاہد حامد کے نزدیک کرکٹ میں کرپشن کرنے والوں کا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ ان کی کرپشن کی وجہ سے معصوم فینز کا کرکٹ کے گیم سے بھروسہ اٹھ جاتا ہے۔ عمر نے اپنی یہ کتاب کسی ایکسپرٹ یا پروفیشنل سے زیادہ ایک مداح کی حیثیت سے لکھی ہے۔