چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحاریک ناکام
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد حیران کن طور پر ناکام ہوگئی، قرارداد پیش کئے جانے کے بعد 64 ارکان نے کھڑے ہو کر حمایت کی لیکن خفیہ ووٹنگ میں صرف 50 ووٹ ڈالے گئے، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف بھی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی۔
سینیٹ کی تاریخ میں پہلی بار چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کو عہدے سے ہٹانے کیلئے اپوزیشن اتحاد اور حکومت اور ان کے اتحادیوں کی قراردادوں پر رائے شماری ہو رہی ہے۔
سینیٹ کا خصوصی اجلاس پریزائیڈنگ افسر بیرسٹرسیف کی زیر صدارت ہورہا ہے جو پریزائیڈنگ افسر کے فرائض بھی سرانجام دے دہے ہیں۔
اپوزیشن نے صادق سنجرانی کی جگہ نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کیلئے نامزد کیا تھا جبکہ حکومتی سینیٹرز نے ڈپٹی چیئرمین کیلئے فی الحال کوئی نام نہیں دیا۔
اپوزیشن اتحاد کی جانب سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی جس کے جواب میں حکومت اور اتحادیوں نے بھی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان کیخلاف تحریک جمع کرائی۔ سلیم مانڈوی والا کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈرراجا ظفر الحق نے چیئرمین صادق سنجرانی کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی جس کے بعد تصدیق کیلئے کرائی جانے والی ووٹنگ کے دوران 64 اراکین سینیٹ نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کرقرارداد کی حمایت کی۔
اس کے بعد بیرسٹر سیف احمد نے سینیٹ اراکین کو خفیہ ووٹنگ کے طریقہ کار سے آگاہ کیا۔
ووٹنگ کے بعد گنتی کی گئی تو حیران کن طور پر خفیہ رائے شماری کے بعد سامنے آنے والے نتائج کے مطابق صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی۔ اپوزیشن اتحاد کو 53 ووٹ درکار تھے جبکہ صادق سنجرانی کے خلاف کل 50 ووٹ ڈالے گئے۔
پہلا ووٹ سینیٹر حافظ عبدالکریم نے کاسٹ کیا۔ ایوان بالا میں موجود 104میں سے 100 اراکین نے ووٹ کاسٹ کیے۔
چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد صادق سنجرانی نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے شروع دن سے ہی اندازہ تھا، اپوزیشن اور حکومت دونوں نے مجھے ووٹ دیا۔
صحافی کے سوال پر کہ یہ جادو کیسے کردیا؟، صادق سنجرانی بولے کہ کوئی جادو نہیں کیا، قوانین کے مطابق ہاؤس چلایا، کوئی زیادتی نہیں کی۔
ڈپٹی چیئرمین کیخلاف تحریک عدم اعتماد بھی ناکام
ڈپٹی چيئرمين سينيٹ سليم مانڈوی والا کیخلاف تحريک عدم اعتماد بھی ناکام ہوگئی، قرار داد کی حمایت میں 7 جبکہ مخالفت میں 32 ووٹ پڑے۔ چيئرمين اور ڈپٹی چيئرمين سینیٹ کيخلاف عدم اعتماد کی تحاریک کی ناکامی کے بعد اجلاس غير معينہ مدت کیلئے ملتوی کرديا گيا۔
صحافیوں سے گفتگو میں ڈپٹی چيئرمين سينيٹ سليم مانڈوی والا کہتے ہيں تحريک عدم اعتماد جمہوری عمل تھا، کئی ارکان نے قرار داد پر ووٹ ڈالا، يہ سسٹم کی کاميابی ہے، جمہوری عمل کو چلنا چاہئے، اس کی مذمت نہيں کرنی چاہئے۔
ان سے سوال کیا گیا کہ کون سے 14 اراکین نے ووٹ نہیں ڈالا؟، جس پر انہوں نے کہا کہ يہ سياسی حکمت عملی ہوتی ہے، يہ غير جمہوری عمل نہيں تھا۔
سینیٹ میں پارٹی پوزیشن
پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو سینیٹ میں 104 سینیٹرز ہیں جن میں سے ن لیگ سے تعلق رکھنے والے اسحاق ڈار نے بیرون ملک ہونے کے باعث حلف نہیں اٹھایا۔
یوں 103 سینیٹرز کے ووٹوں کا جائزہ لیا جائے تو 65 اپوزيشن اتحاد میں کھڑے نظرآتے ہيں۔
ن لیگ کے 30 سینیٹرزمیں سے سے 16 پارٹی ٹکٹس پر منتخب ہوئے جبکہ 14 آزاد ہیں جبکہ پيپلزپارٹی کے21 سينيٹرز ميں سے ايک آزاد ہے۔
نیشنل پارٹی کے 5، جے يو آئی ف کے 4 ، اے اين پی کا ايک اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 4 سينيٹرز ہيں جن ميں سے دو آزاد ہيں۔
اسپیکرسینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اپوزیشن اتحاد کو 53 ووٹ درکار ہیں۔ اس طرح ڈپٹٰی چیئرمین کو ہٹانے کیلئے بھی 53 ہی ووٹ درکار ہوں گے۔
حکومتی اتحاد
حکومتي اتحاد میں مجموعی طور پرسينيٹرزکی تعداد 36 ہے جن میں تحريک انصاف کے 14 ، بلوچستان عوامی پارٹی کے8 ، سابق فاٹا کے 7 ، ايم کيوايم کے 5 جبکہ مسلم ليگ فنکشنل اور بی اين پی مينگل کا ايک ايک ووٹ شامل ہے۔
سینیٹ میں جماعت اسلامی کے 2 ارکان ہیں جنہوں نے تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
دیکھا جائے تو سینیٹ میں اپوزیشن ارکان کی اکثریت ہے لیکن خفیہ بیلٹنگ پر ہونے والے فیصلے کے نتائج ہی ظاہر کریں گے کہ کسے کس پر کتنا اعتماد ہے۔
خفیہ بیلٹنگ
خفیہ رائے شماری کے تحت ہرسینیٹرحروف تہجی کے حساب سے اپنا بیلٹ پیپر حاصل کرے گا۔ حق یا مخالفت میں دیے جانے ووٹ کو لازمی بیلٹ باکس میں ڈالنا ہوگا۔ ارکان سینیٹ پولنگ بوتھ کے اندر اپنا موبائل فون نہیں لے جا سکیں گے۔ ارکان کو ووٹ کی رازداری ہر حال میں یقینی بنانا ہو گی اس لیے بیلٹ پیپر کسی کو دکھانا یا تصویر بنانا سختی سے منع ہے۔
اگر صادق سنجرانی اور سلیم مانڈوی والا کے خلاف 53 یا اس سے زیادہ ووٹ آئے تو انہیں عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔ 53 سے کم ووٹ آنے کی صورت میں عہدے برقرار رہیں گے۔
عہدے خالی ہونے پر 7 روز کے اندر نئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کاانتخاب عمل میں لایا جائے گا۔ انتخابات کے لئے پریزائیڈنگ افسر شیڈول کا اعلان کریں گے ۔