افغان طالبان پاکستان آکر وزیراعظم عمران خان سے بات چیت پر رضامند ہوگئے
ترجمان افغان طالبان کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان نے دعوت دي تو پاکستان جائيں گے اور وزيراعظم سے ملاقات بھي کريں گے۔ سہیل شاہین کا مزید کہنا تھا کہ جن کے پاس دليل نہیں ہوتي وہ طالبان پر پاکستان کي پراکسي ہونے کا الزام لگاتے ہيں۔
دوحا میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ پاکستان بھی ہمارا ہمسایہ اور مسلمان ملک ہے، جن کے پاس دليل نہيں ہوتي وہ پراپيگنڈا کرتے ہيں، پاکستان کي پراکسي ہونے کا الزام لگاتے ہيں، مستقبل میں بھی ایسے الزامات لگتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمام افغان فریقین کيساتھ ساتھ افغان حکومت سے بھی ملیں گے۔
طالبان کے ترجمان نے افغان حکومت سے بھي ملنے پر رضا مندي کا اظہار کيا اور کہا کہ بيروني قوتوں کے ساتھ مذاکرات کي کاميابي کي صورت ميں وہ حکومت سميت تمام افغان فريقين سے مليں گے، ہم نے افغانستان کے مسئلے کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا ہے، ایک بیرونی اور دوسرا اندرونی، پہلے مرحلے میں جاری مذاکرات اب اختتامی مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں، اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں، تو پھر ہم دوسرے مرحلے میں تمام افغان فریقین سے بات چیت کریں گے، جس میں افغان حکومت بھی ایک فریق کی حیثیت سے شامل ہو سکتی ہے۔
طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا یہ بھی کہنا تھا کہ بیرونی قوتوں کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے بعد وہ تمام افغان فریقین کے ساتھ ساتھ افغان حکومت سے بھی ملیں گے۔

دورہ امریکا میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اُن سے کچھ ماہ قبل بھی طالبان وفد ملنا چاہتا تھا لیکن افغان حکومت کی تشویش کی وجہ سے اُنہوں نے ملنے سے انکار کیا۔ پاکستانی وزيراعظم عمران خان نے دورہ امريکا کے دوران افغان طالبان سے مل کر افغانستان کا مسئلہ حل کرانے کا اعلان کيا تھا۔

افغان طالبان پر ماضی میں متعدد بار یہ الزام لگ چکا ہے کہ پاکستان اُن کو سپورٹ کررہا ہے، تاہم حال ہی میں پاکستان بار بار یہ کہہ چکا ہے کہ اُن کا طالبان پر ماضی کی طرح اثرورسوخ نہیں رہا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس سال فروری میں میڈیا کو جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ اُن کا ایک وفد پاکستان کا دورہ کرے گا اور وزیراعظم عمران خان سے ملیں گے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے امریکا کے دورے میں یہ بھی کہا تھا کہ کابل سے اغوا کیے گئے دو غیرملکیوں کے رہائی کی خوشخبری دے سکتے ہیں۔ 62 سالہ امریکی شہری کیون کینگ اور پچاس سالہ آسٹریلوی شہری ٹیموتھی جاون کابل میں امریکن یونیورسٹی میں بطور استاد کام کرتے تھے، جن کو اگست 2016 میں افغان دارالحکومت کابل سے اغوا کیا گیا تھا۔
وزیراعظم عمران خان کے اس بیان پر سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ وہ ’48 گھنٹے‘ کا کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں، البتہ اُن کی ہر وقت یہ کوشش ہوتی ہے کہ قیدیوں کے تبادلے ہوں اور اُن کے گرفتار ساتھی رہا ہو جائیں، ہم نے پہلے بھی گرفتار ساتھیوں کی رہائی کے لیے قیدیوں کے تبادلے کیے ہیں اور اب بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اُس میں اگر کوئی کچھ کردار کرنا چاہتا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔