پشاور، گزشتہ برس کے بنسبت رواں سال سنگین جرائم میں تشویشناک اضافہ

خیبر پختونخوا پولیس کی جانب سے بلند بانگ دعووں کے باجود رواں سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران سنگین جرائم کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
پشاور پولیس کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2019 کے ابتدائی 6 ماہ میں جرائم کی شرح 2018 کے پہلے 6 ماہ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ جرائم کی وجوہات میں کمر توڑ مہنگائی اور بے روزگاری کا بھی کردار ہے یا پھر محض پولیس کی غفلت شامل ہے۔ اس کا تاحال تعین نہیں کیا جاسکا۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق صوبائی دارالحکومت میں سال 2018 کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران بھتے کی عدم ادائیگی پر صرف ایک جبکہ امسال 5 تاجروں کے مکانات پر بم دھماکے اور فائرنگ کے واقعات پیش آئے۔ اسی طرح پچھلے سال کی نسبت موبائل چھیننے اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
دستاویزات کے مطابق سال 2018 کے ابتدائی 6 مہینوں کے دوران صوبائی دارالحکومت پشاور کے پوش، شہری اور دیہی علاقوں میں قتل کے 172 جبکہ امسال 180 واقعات رونما ہوئے ہیں۔
اسی طرح گزشتہ سال راہزنی کے 53 جبکہ رواں سال کے دوران اب تک 62 وارداتیں ہوئیں اور مختلف علاقوں میں 114 افراد کو قیمتی موبائل فونز اور نقدی سے محروم کیا گیا۔ اس کے ساتھ 2018 کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران گاڑی چھیننے کی ایک واردات ہوئی جبکہ رواں سال 5 افراد سے اسلحے کی نوک پر گاڑیاں چھینی گئیں۔
حکومتی دعووں کے باوجود پچھلے سال کی نسبت اس سال تاجر بھی غیر محفوظ دکھائی دیئے۔ گزشتہ برس نامعلوم بھتہ خوروں نے ایک شخص جبکہ رواں سال 5 افراد کے مکانات کے باہر بھتے کی عدم ادائیگی پر دھماکے کئے۔ اس کے علاوہ گزشتہ اور رواں سال 13/13 افراد کو بھتہ وصولی کیلئے دھمکی آمیز خطوط اور ٹیلی فون کالز موصول ہوئیں۔
دستاویزات کے مطابق 2018 میں پولیس پر 19 جبکہ 2019 کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران 27 حملے کئے گئے۔
اسی طرح مثالی پولیس ننھے بچوں کو بھی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام نظر آئی۔ گزشتہ سال کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران بچوں سے زیادتی کا صرف ایک واقعہ رونما ہوا تھا جبکہ اس کی نسبت امسال صرف ضلع پشاور میں 6 واقعات رونما ہوئے۔ اس کے علاوہ گزشتہ سال زنا کے 8 جبکہ امسال 21 واقعات رپورٹ ہوئے۔