ٹرین حادثات، ڈرائیورز کی تربیت حکومتی ترجیحات میں کیوں شامل نہیں؟
پاکستان میں آئے روز ٹرین حادثے معمول بن چکے ہیں جس کی وجوہات میں کبھی ڈرائیور کی غفلت سامنے آتی ہے تو کبھی تکنیکی وجوہات کے باعث قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں ۔
گزشتہ روز بھی صادق آباد کے قریب ولہار ریلوے اسٹیشن پرلاہور سے کوئٹہ جانے والی اکبر ایکسپریس اور مال گاڑی میں تصادم سے اب تک 24 جانیں جا چکی ہیں جبکہ خواتین اور بچوں سمیت 90 سے زائد افراد افراد زخمی ہیں۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے اجلاس میں بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ ایک سال کے دوران پٹڑی سے ٹرین اترنے کے 61 واقعات سمیت ریلوے کے 74 حادثات ہوئے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں محفوظ ترین سمجھا جانے والا پاکستان ریلوے کا سفر اب غیر محفوظ کیوں ہو گیا؟ زیادہ ترحادثات میں اگر ڈرائیور کی غفلت سامنے آتی ہے تو پھر ان کی تربيت حکومت کي ترجيحات ميں شامل کیوں نہیں ہے۔
وزير ريلوے شیخ رشید نے جب سے وزارت سنبھالی ہے ان کی بھرپور توجہ نئي ٹرينيں چلانے پر ہے لیکن ڈرائيوروں اور ٹيکنيکل سٹاف کي تربيت کی جانب کسی کا دھیان نہیں جاتا جبکہ پاکستان ریلویز میں اس وقت 23 ہزار سے زائد ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل سٹاف کی اسامیاں بھی خالی پڑی ہیں۔
ملک بھر میں 3 ہزار 200 ڈرائيورز اور اسسٹنٹ ڈرائيورز کی ٹريننگ کے ليے صرف ایک اکیڈمی سموليٹر والٹن ہے جو لاہور میں واقع ہے۔
کسی بھی ٹرین کے ہر ڈرائيور کے ليے 3 سال بعد دوبارہ ٹيسٹ دينا لازمي ہوتا ہے ليکن سموليٹر کی کمی کي وجہ سے ڈرائيوروں کي باری کئی سال بعد آتی ہے۔ريلوے ڈرائيوروں کي جانب سے کراچي اور راولپنڈی ميں سميوليٹراور اکيڈمی بنانے کا مطالبہ کئی بار کیا جا چکا ہے جو آج تک پورا نہيں کیا گیا۔