پڑوسیوں۔۔ہن آرام اے؟

پاکستان کی شکست پربلیوں اچھلنے والے دل شکستہ بھارتیوں کا صدمہ ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے پڑوسیوں سے چھٹکارا پانے کیلئے بڑی ڈیڑھ ہوشیاری کے ساتھ پلاٹ بناتے ہوئے فائنل کھیلنے کی منصوبہ بندی کی تھی لیکن ’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیرتھا ‘‘ کے مصداق کل کیویز کے ہاتھوں سیمی فائنل میں شکست کے ساتھ ہی ان کا بھی واپسی کا ٹکٹ کٹ گیا۔
زیادہ دن نہیں گزرے جب روہت شرما کی سینچری اور کوہلی جی کے 66 رنز کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے بھارتی ٹیم ہنسی خوشی 337 رنز کے تعاقب میں 31 رنز سے انگلینڈ کے آگے ڈھیر ہو گئی تھی لیکن اہم میچز میں شکست پر کھلاڑیوں کی عزت کا فالودہ کرنے والا بھارتی میڈیا اور عوام کچھ نہ بولے کیونکہ اس ہار میں انہیں پاکستان کے باہر ہونے کی صورت میں جیت نظر آئی۔
ویسے تو دوسروں کے بارے میں گمان سے بچنے کا کہا گیا ہے پھر بھی ہمیں لگتا ہے کہ کاکے سپاہیوں نے سوچا سیمی فائنل میں شاہینوں کے ساتھ ٹکرانے سے بہترہے، ہارکر ابھی ہی ان کا کام تمام کردو تو آگے کا کھڑاک ہی ختم ۔۔۔ پر کتھوں ؟ پکچر ابھی باقی تھی کیونکہ اس دن باپ کو باہر کرنے والے نالائق بیٹے کل میدان میں جیتنے کا خواب لیے اترے تو کیویزکی پھرتیاں پلس موسم کی سختیاں ان کے آڑے آگئیں۔
انگلینڈ سے شکست پر سابق انگلش کپتان اور کمنٹیٹرناصر حسین تک نے کہہ دیا تھا کہ سمجھ سے بالاتر ہے بھارت ایسا کیوں کھیل رہا ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ وہ ٹیم ہے جس کی پرواز آخری نمبروں تک ہمارے شاہینوں کی تخیل کی طرح نہیں بلکہ حقیقتا اونچی ہے ۔۔۔ مڈل آرڈر سے لے کرآخری نمبرز تک بھارتی کھلاڑی ٹارگٹ چیز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اس دن پڑوسیوں کو نیچا دکھانے کی بدنیتی نے پانڈیا اور دھونی جی کو ٹک ٹک سے آگے نہ بڑھنے دیا اور شائقین ’’فنشر‘‘ کی فنشنگ کے منتظر ہی رہے۔
اس دن کے بوئے بیج کی فصل کل اگی جب بھارتیوں کے ارمان خاک میں ملے۔ مانچسٹر میں کیویز نے بھی ایسا جال بچھایا کہ نہ شرما جی کی چلی نہ ہی راہول ، کارتک اور کوہلی بابو دوڑ سکے ۔۔ ساری تکنیک دھری کی دھری رہ گئی تو پھر یاد تو آیا ہوگا کہ انگلینڈ کے خلاف کیسے ہارے تھے؟ وہ ساری شوخیاں جو اس دن بھارتیوں نے ٹرولنگ کے ذریعے ماری تھیں ۔۔۔ زندہ دل پاکستانی شائقین نے ان کا جواب اس روز بھی پورے دم کے ساتھ دیا تھا تو کل تو ان کی سنی گئی تھی سو پیچھے کیسے رہتے ۔۔۔۔۔ پڑوسی تو ایک طرف فی الحال تو بیچارے بھارتی کھلاڑیوں کو اپنے میڈیا کی مار الگ پڑ رہی ہے۔
تو بتانا بس یہ تھا کہ انگلینڈ کے خلاف ہم نے تو خوب دعائیں مانگی تھیں کہ جیت شریکوں کا مقدر بن جائے۔ بھلے سے اپنے ہی فائدے کیلئے لیکن اس دن ہمیں اسلام میں سکھائے گئے پڑوسیوں کے حقوق بھی یاد آگئے پھر بھی پڑوسی دعائیں لینے پر راضی نہ ہوئے تو ’’ہن آرام اے‘‘ کہنا ہمارا حق بنتا ہے۔۔
نیوزی لینڈ کیلئے سیمی فائنل کا دروازہ کھولنے والوں نے ہی اسے فائنل میں بھی پہنچایا اس لیے بھارتی شائقین اب صرف ابھی نندن کے کپ کو ہی یاد کریں۔