پاکستانی میڈیا میں سنسر شپ کی حقیقت
یہ سنسر شپ کس چڑیا کا نام ہے؟ اس نام کی کسی چیز کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں، شاید سنسر شپ، سنسر شپ چلانے والے صحافی ضرور کسی ذہنی بیماری کا شکار ہوں گے۔
ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیں تو کراچی سے خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاح تک رپورٹر حضرات انتہائی آزادی سے بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
جو لوگ صحافی برادری کو لاحق خطرات کے بارے میں بڑی بڑی ہانکتے پھرتے ہیں، ذرا وہ تھوڑی ریسرچ کرلیں، آج تک اس ملک میں ایک بھی صحافی یا کیمرہ مین اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے زخمی یا جاں بحق نہیں ہوا۔
یقین کریں پاکستان میں سلیم شہزاد نامی کوئی صحافی تھا ہی نہیں، تو پھر اس کی نعش منڈی بہاءالدین سے کیسے مل سکتی ہے؟، صحافی حامد میر پر جو حملہ کراچی میں ہوا، اس کی سچائی تو سب ہی جانتے ہیں کہ کیسے میر صاحب نے خود ہی ربڑ کی گولیوں سے خود پر حملہ کروایا اور اسپتال میں بیٹھ کر آرام سے دلیپ کمار کی پرانی فلمیں دیکھتے رہے۔
سنسرشپ۔۔۔ سنسر شپ۔۔۔ کہاں ہے یہ سنسر شپ؟، اگر پاکستان میڈیا میں اس نام کی کوئی بیماری ہوتی تو کیا طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کا انٹرویو جیو نیوز پر چل سکتا تھا؟، یہ میڈیا کی آزادی کی واضح دلیل نہیں تو اور کیا ہے؟۔
لیکن وہی جیو نیوز سابق صدر اور جعلی اکاؤنٹس کیس میں ملزم آصف زرداری کا انٹرویو نہیں چلا سکا۔ پیمرا کے جنرل منیجر فخر الدین مغل نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پیمرا کو اس بارے میں علم نہیں اور اگر پروگرام رکا ہے تو چینل کی انتظامیہ نے خود روکا ہوگا۔
آخر پھر یہ انٹرویو کس نے روکا؟، اس حوالے سے حامد میر صاحب کا کہنا ہے کہ جنہوں نے یہ انٹرویو روکا ان میں خود بھی اتنی ہمت نہیں کہ سب کے سامنے آکر بتا سکیں کہ یہ انٹرویو انہوں نے روکا ہے۔
وزیراعظم کی خصوصی معاون برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان فرماتی ہیں کہ انٹرویو کو پیمرا رولز کے تحت روکا گیا کیونکہ پروڈکشن آرڈر پر پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کی جاسکتی ہے لیکن انٹرویوز نہیں دیئے جاسکتے۔
خیر پیمرا رولز کے تحت انٹرویو روکا گیا لیکن پیمرا کے جنرل منیجر کو ہی نہیں پتہ کہ انٹرویو ان کے ادارے کے رولز کے تحت رکوایا گیا تھا۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی کے رہنماء قمر زمان کائرہ منگل کے روز شکایت کررہے تھے کہ میڈیا ان کو کوریج نہیں دے رہا۔ اس حوالے سے انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ گوجر خان میں پیپلزپارٹی کے جلسے کو کوریج نہیں دی گئی جبکہ میڈٰیا پر ہر حکومتی اہلکار کو کوریج دی جاتی ہے۔
کیا یہ سنسرشپ ہے؟، میں تو نہیں مانتا، جسے جو کرنا ہے کرلے، لیکن میں نہیں مانوں گا۔
گوہر وزیر جو کہ خیبر نیوز کے ایک رپورٹر ہیں، انہیں پشتون تحفظ موومنٹ کی کوریج کے دوران مئی میں گرفتار کیا گیا تھا تاہم انہیں دو دن بعد ہی چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے مجھے خود بتایا کہ ان پر کسی بھی قسم کا کوئی جسمانی تشدد نہیں کیا گیا، ہاں انہوں نے یہ ضرور بتایا کہ دوران گرفتاری انہیں ذہنی تشدد کا سامنا رہا کیونکہ اگر وہ باتھ روم بھی جاتے تو پولیس اہلکار ان کے ساتھ ہوتے تھے۔
تو ثابت ہوا پاکستان میں صحافیوں کو کسی بھی قسم کے خطرے کا سامنا نہیں اور یہ سنسرشپ نام کی کوئی چیز تو اس ملک میں ہے ہی نہیں۔
سنسر شپ سے یاد آیا جیو نیوز اسلام آباد کے ایک صحافی نے مجھے بتایا تھا کہ انہیں ان کے ادارے کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ پشتون تحفظ موومنٹ کے حوالے سے کوئی ٹوئٹ بھی نہ کریں۔
خیر میں اسے بھی سنسرشپ نہیں مانتا، جیو نیوز کے کسی افسر کے دل میں خود ہی خیال آگیا ہوگا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے حوالے سے کچھ بھی ٹوئٹ کرنا گندی بات ہوتی ہے اور انہوں نے منہ اٹھاکر اپنے ہی صحافی کو کہہ دیا کہ ’’نہ بچے نہ‘‘ پشتون تحفظ موومنٹ پر کوئی ٹوئٹ نہ کرنا۔
یاد رکھیں سنسرشپ کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں اور جو لوگ سنسرشپ۔۔ سنسر شپ کا راگ الاپتے ہیں، وہ ضرور جھوٹ بھولتے ہوں گے۔