آئی ایم ایف پروگرام کے نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہوجائیں
پاکستان اور انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کئی ماہ کی کوششوں کے بعد حتمی طور پر قرض پروگرام پر متفق ہوگئے ہیں۔
آئی ایم ایف کے حالیہ پروگرام کے تحت پاکستان اگلے تین سال کےلیے 6 ارب ڈالرر کا قرض حاصل کر سکے گا، تاہم پروگرام کی حتمی منظوری واشنگٹن میں مقیم آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے دینی ہے۔
آئی ایم ایف کا یہ قرض پاکستان کے کم ہوتے ڈالر کے ذخائر کو مستحکم کرنے میں مدد دے گا، جو کہ اس وقت 9 ارب ڈالر پر موجود ہیں۔ پاکستان کو اپنے تجارتی خسارے کو پورا کرنے اور گذشتہ قرض ادا کرنے کےلیے ڈالرز کی اشد ضرورت ہے، جبکہ ملک کا تجارتی خسارہ ماہانہ 2 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان کے موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر بیرونی فنانسنگ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں۔
آئی ایم ایف کا قرض پروگرام جن شرائط کےساتھ آئے گا اسکی وجہ سے اقتصادی اصلاحات بہت تکلیف دہ ہوں گی، اور یہ اصلاحات ملک کے کاروباری افراد اور عام شہریوں کو متاثر کریں گی۔ یہ قرض صرف ہماری معیشت پر تباہی کو ختم نہیں کرے گا بلکہ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے پڑے گے جس کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوگا۔
آئی ایم ایف سے ملنے والے اہداف کے مطابق حکومت کو اپنی آمدنی میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کرنا ہوگی۔ مالی سال 2018 میں حکومتی خسارہ 2 ہزار ارب روپے تھا۔ آنے والے چند ماہ میں کچھ چیزیں درج ذیل ہیں۔
روزمرہ کے اخراجات میں اضافہ
حکومت، آمدنی میں اضافے کےلیے ممکنہ طور پر آنے والے نئے بجٹ میں مزید نئے ٹیکسز لگائے گی یا اس میں اضافہ کرے گی۔ اسکے ساتھ حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے ہوں گے، جس میں ترقیاتی کاموں میں ہونے والے اخراجات، اسکولوں، اسپتالوں، سڑکوں اور پارکس پر خرچ ہونے والا پیسہ شامل ہے۔ اسکے علاوہ گیس اور بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرنا ہوگی، یہاں تک کہ پیٹرول پر ٹیکس بڑھایا جائے گا۔ بہت سے معاملات 24 مئی کے بجٹ میں واضح ہوجائیں گے۔
پروگرام کی ایک اور شرائط کے مطابق حکومت غیرملکی کرنسی مارکیٹ میں مداخلت اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت طے نہیں کرے گی۔
گذشتہ حکومت میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایسے وقت پر روپے کی قیمت کو مصنوعی طریقے سے قابو کیا ہوا تھا جس وقت ڈالر کے مقابلے میں تمام ممالک کی کرنسیاں مشکلات کا شکار تھیں۔ دسمبر 2017 سے ڈالر کی قیمت میں ابتک 25 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، مگر ماہرین کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ڈالر مزید 5 سے 10 فیصد مہنگا ہوسکتا ہے۔ آخری اطلاعات تک پیر 13 مئی کو اوپن مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر 143.5 تک پہنچ چکا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وفاق نے آئی ایم ایف کو خوش کرنے کیلئے سندھ کا حق چھیننے کی تیاری کرلی
موجودہ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے مارچ کے آخر تک مہنگائی کی شرح پانچ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، جبکہ ماہرین کہتے ہیں کہ 30 جون تک مہنگائی کی شرح 9 فیصد سے بڑھ سکتی ہے۔ بہرحال آئی ایم ایف پروگرام کے تحت یہ توقع کی جا رہی ہے کہ مہنگائی میں اضافہ ہوگا جس کے باعث روزمرہ اخراجات میں اضافے کے ساتھ کاروبار کرنا بھی مشکل ہوجائے گا۔
بیروزگاری میں اضافے کا خدشہ
آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج کے بعد ملک میں بیروزگاری مزید بڑھنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ اس قرض اور بیروزگاری کا تعلق سجھنے کیلئے فیکٹریوں کی مثال لے لیں۔
آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق پاکستان میں شرح سود میں مزید اضافہ ہوگا جبکہ بجلی، گیس اور تیل مہنگے ہوجائیں گے جس کے باعث ملک میں نئی صنعتیں لگنے کے امکانات معدوم ہوجائیں گے جس کے باعث روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوں گے جبکہ بعض صنعتیں اپنے اخراجات کم کرنے یا خسارے سے بچنے کیلئے اپنا کاروبار محدود کردیں گے جس کی وجہ سے ملازمین کو نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔
صوبوں کے بجٹ پر منفی اثر
آئی ایم ایف نے حکومت سے کہا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں میں پیسوں کی تقسیم پر نظر ثانی کی جائے۔ سادہ الفاظ میں آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ وفاق صوبوں کو دی جانے والی رقم میں کٹوتی کرے۔
اس کو ذرا مزید واضح کرتے ہیں۔ حکومتی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ٹیکس ہوتے ہیں۔ تمام صوبے اور وفاق ملک بھر سے ٹیکس اکھٹے کرتے ہیں۔ جمع ہونے والی رقم کو ’قابل تقسیم محاصل‘ کہا جاتا ہے یعنی یہ رقم بعد میں صوبوں اور وفاق میں تقسیم ہوتی ہے اور تقسیم ہونے تک یہ پوری رقم وفاق کے پاس رکھی جاتی ہے۔
تقسیم کے وقت اس رقم کا 42 اعشاریہ 5 فیصد وفاق کے حصے میں آتا ہے جبکہ بقیہ 57 اعشاریہ 5 فیصد صوبوں میں تقسیم ہوتا ہے اور صوبوں میں تقسیم کا فارمولا ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت طے کردیا گیا ہے۔
اب آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ وفاق این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے حصے میں کٹوتی کرے اور اس کا سب سے زیادہ اثر سندھ پر پڑے گا کیوں کہ سندھ کے ریونیو کا 70 فیصد وفاق سے آتا ہے۔