پاکستان اور آئی ایم ایف کےدرمیان حتمی معاہدہ آج طے پانے کا امکان
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 3 سالہ پروگرام پر آج معاہدے کا امکان ہے۔ حکومت نے بجلی اور گیس مہنگی کرنے سمیت کئی کڑی شرائط تسلیم کرلیں۔
انتیس اپریل کو 2 ہفتے کے دورے پر پاکستان آنے والے آئی ایم ایف مشن نے مسلسل 11 روز مذاکرات کے بعد وزرات خزانہ کے ساتھ نیا قرض لینے سے متعلق تمام جزئیات طے کرلی ہیں۔ حتمی معاہدہ طے پانے کے بعد حکومت کو3 سال کے ليے ساڑھے 6 ارب ڈالرز کا بيل آؤٹ پيکج ملے گا۔
آج مذاکرات کا فائنل راؤنڈ ہے جس کے بعد پاکستان کی جانب سے دستاویز پر نئے گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر دستخط کریں گے۔
آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ جائزہ مشن کی رپورٹ کی روشنی میں پاکستان کے لیے قرضہ پروگرام کی منظوری دے گا، آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح 11.7 فیصد سے بڑھاکر 13.2 فیصد جب کہ براہ راست ٹیکسوں کا حجم 1619 ارب روپے سے بڑھاکر 1904 ارب روپے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔۔
ساڑے 6 ارب ڈالر سے زائد قرض کے 3 سالہ پروگرام کے تحت پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کو بجٹ خسارے میں کمی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
ملک کی ڈولتی معیشت سنبھالنے کیلئے پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف کی کئی کڑی شرائط مان لی ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستان سے بجٹ میں 700 ارب روپے کے اضافی ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ نئی شرائط کے تحت آئندہ 3 سال میں بجلی اورگیس مزید مہنگی کر کے صارفین سے 340 ارب روپے اضافی وصول کیے جائیں گے۔ اس طرح سے صارفین پر سالانہ 114 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا جائے گا۔
یکم جولائی سے بجلی کی قیمتوں میں مرحلہ وار اضافہ ہوگا۔ ٹیرف میں تبدیلی سہہ ماہی بنیاد پر ہوگی جبکہ بجلی کی قیمت طے کرنے کیلئے نیپرا اور گیس نرخ کا تعین کرنے کیلئے اوگرا کوفری ہینڈ دیا جائے گا ۔چھوٹے صارفین (300 یونٹ تک استعمال کرنے والے گھریلو صارفین ) اور برآمدی شعبے سے وابستہ صنعتی صارفین کے علاوہ سب کیلئے سبسڈی ختم کر دی جائے گی۔
دوسرے مرحلے میں گیس کے نرخ بڑھائے جائیں گے۔
ترقیاتی بجٹ گزشتہ سال کی سطح پر منجمد کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، نئے بجٹ میں 600 ارب سے زائد کے ٹیکس عائد کیے جائیں گے جبکہ خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری بھی کردی جائے گی ۔