جامعہ کراچی کے 2 اساتذہ پر طالبات کو ہراساں کرنے کا الزام

جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ (ماس کمیونی کیشن) کے 2 اساتذہ پر طالبات کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
متاثرہ طالبات کی جانب سے ایک طالبعلم طہماس علی خان نے دونوں اساتذہ کیخلاف درخواست جمع کرائی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ طالبات سامنے آنے سے بہت ڈرتی ہیں۔
طہماس نے کہا کہ اس نے 30 اپریل کو ایک درخواست جمع کرائی تھی، جس پر 5 طالبات نے دستخط کئے تھے، جسے اسٹوڈنٹس ایڈوائزی کمیٹی آفس نے میرے دستخط نہ ہونے کے باعث جعلی قرار دیا تاہم میں 2 مئی کو دوبارہ یونیورسٹی گیا اور 3 طالبات کے دستخط کے اور ساتھ دوسری شکایت جمع کرائی، جس میں کہا گیا تھا کہ اساتذہ خواتین کو ان کے ٹیلی فون نمبرز پر پیغامات بھیج کر ہراساں کرتے ہیں۔
اسسٹنٹ پروفیسر اسامہ شفیق نے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔ ایک اور لیکچرار کا نام بھی شکایتی درخواست میں درج ہے تاہم ان کا مؤقف تاحال سامنے نہیں آیا۔
الزامات کے ساتھ پیش کئے گئے واٹس ایپ پیغامات میں مبینہ طور پر اساتذہ کی جانب سے طالبات سے پوچھا گیا کہ وہ کہاں رہتی ہیں؟، اگر وہ یونیورسٹی کے بعد فارغ ہوں، وہ یونیورسٹی میں کس طرح وقت گزارتی ہیں؟، کیا ان کے دوست ہیں یا نہیں؟۔ ایک پروفیسر نے طالبہ ’’صبح بخیر‘‘ کا پیغام بھیجا اور اس کے کچھ ہی دیر بعد سفید گلاب ارسال کیا گیا۔
یونیورسٹی انتظامیہ کا مؤقف
ترجمان جامعہ کراچی محمد فاروق نے اساتذہ کیخلاف کسی بھی طالبہ کی جانب سے شکایت موصول ہونے کی تردیر کرتے ہوئے کہا کہ اگر طالبات کو ہراساں کیا گیا ہے تو سامنے آئیں اور انتظامیہ سے رابطہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ تاحال کوئی بھی طالبعلم وائس چانسلر کے پاس نہیں گیا، وہ ایسے کسی طالبعلم یا اس کے سیٹ نمبر کے بارے میں نہیں جانتے۔
ترجمان نے کہا کہ درخواست پر موجود دستخط جعلی بھی ہوسکتے ہیں، متاثرہ طالبات سامنے نہیں آئیں گی تو یونیورسٹی معاملہ کس طرح آگے بڑھا سکتی ہے، ماضی میں بھی متاثرین کی شکایات پر کارروائی کی گئی ہے، متاثرہ خواتین کو خود پیش ہو کر ثبوت فراہم کرنا ہوں گے، پہلے بھی قانون کے مطابق فیصلے ہوئے آئندہ بھی ہوں گے۔
متاثرہ طالبہ کا دعویٰ
سماء کے پروگرام ’’7 سے 8‘‘ میں میزبان کرن ناز سے گفتگو کرتے ہوئے جامعہ کراچی کی ایک طالبہ نے بتایا کہ انہیں ایک نوکری کی پیشکش ہوئی۔ جب اس کمپنی سے متعلق معلومات لینے کیلئے فیس بک پر استاد سے رابطہ کیا تو انہوں نے واٹس ایپ پر میسیج کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے مجھے رہنمائی فراہم کی لیکن بعد میں میری ذاتی معلومات لینے لگے، جیسے کہ آپ کے ’’والد کیا کرتے ہیں؟، کہاں رہتی ہو؟، کوئی دوست تو نہیں؟۔ پوچھا گیا کہ اگر دوستی کی جائے تو کیسی ہو؟، میں نے جواب دیا کہ خود کو فطری طور پر سنجیدہ سمجھتی ہوں۔
طالبہ کا کہنا تھا کہ پروفیسر کے پیغامات مجھے پریشانی میں مبتلا کررہے تھے کیوں کہ انہوں نے رات گئے میسجز پر دوستی کی پیشکش کی اور واٹس ایپ پر غیر مناسب پیغامات بھیجے۔
انہوں نے کہا کہ میرا الیکٹرانک میڈیا کا مضمون پڑھنے کا ارادہ تھا مگر اسامہ شفیق اس شعبہ میں پڑھاتے تھے جس کے باعث میں نے اپنا ارادہ تبدیل کردیا۔
طالبہ کا کہنا ہے کہ میرے علاوہ 5 لڑکیوں کے پاس ہراساں کئے جانے کے ثبوت موجود ہیں۔ ایک لڑکی کو جسمانی ہراسگی کا بھی سامنا کرنا پڑا تاہم وہ بہت خوفزدہ ہے۔ اس لئے معاملہ سامنے نہیں لائی۔ جب طہماس علی خان نے یہ معاملہ اٹھایا تو ان پر حملہ کیا گیا، جس کے بعد کچھ لڑکیوں نے اپنے نام واپس لے لیے۔
سماء سے گفتگو میں لڑکی کا کہنا تھا اب تک آواز نہ اٹھانے کی وجہ ڈگری نہ ملنے اور سیکیورٹی خدشات تھے، وہ ہماری شناخت جاننا چاہتے ہیں تاکہ ہمیں ڈرا دھمکا کر شکایت واپس لینے پر مجبور کیا جاسکے۔ ہمارے معاشرے میں زیادتیوں کیخلاف آواز اٹھانے والوں کا ساتھ نہیں دیا جاتا، فیس بک پر پیغامات دیکھ لیں جامعہ کراچی کی لڑکیوں کو برقع پہننے کے مشورے دیے جارہے ہیں۔
طالبہ نے الزام لگایا کہ شعبہ ابلاغ عامہ کی چیئرپرسن ڈاکٹر سیمی نغمانہ کو سارے واقعات کا علم ہے تاہم وہ کچھ نہیں کرتیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ سب کیلئے مثال بنے، طالبات کو بہتر ماحول فراہم کیا جائے اور ایسے لوگوں کو سبق سکھایا جائے۔
استاد کا موقف
اسسٹنٹ پروفیسر اور ایوننگ شفٹ کے انچارج ڈاکٹر اسامہ شفیق نے سماء ٹی وی کو اپنا مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ اب تک ڈیپارٹمنٹ یا یونیورسٹی کو ہراسانی کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔ اگر کسی کو ہراساں کیا گیا ہے تو سامنے آئے اور شکایت درج کرائے۔
واٹس ایپ پیغامات کے اسکرین شاٹس سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ تحقیقات شروع ہونے پر سب کچھ عوام کے سامنے آجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ گزشہ ماہ ایک ویڈیو کے ذریعے مجھ پر مذہبی منافرت اور فرقہ واریت پھیلانے کے الزامات لگائے گئے جس کے بعد سے جان کو شدید خطرات ہیں۔ یہ ویڈیو پھیلانے والے طالب علم طہماس علی خان کیخلاف ڈسپلنری کمیٹی اور ایف آئی اے سائبر کرائم کو درخواست دے رکھی ہے۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ طالب علم 3 پرچوں میں فیل ہے۔ یہ پرچے کسی ایک استاد کے نہیں تین الگ الگ استادوں کے ہیں۔ طہماس علی خان نے ان اساتذہ سے کہا کہ فیل شدہ پرچے پاس کریں لیکن جب اساتذہ نے انکار کیا تو میرے سامنے ان کے ساتھ بدتمیزی کی۔ مجھے اور جامعہ کراچی کو میڈیا پر بدنام کیا جارہا ہے۔ امتحانات کے دوران بار بار موبائل فون استعمال کرنے پر بھی طہماس کو ہال سے نکالا جاچکا ہے۔
اسامہ شفیق کہتے ہیں کہ طہماس خان کے اقدامات کے خلاف یونیورسٹی کی سطح پر کارروائی جاری ہے۔ قانون اور پیمرا کے تحت بھی کارروائی کریں گے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ طالب علم کردار کشی میں لگا ہوا ہے۔
ترجمان کراچی یونیورسٹی محمد فاروق نے پروگرام ’’7 سے 8‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ طہماس کا معاملہ ڈسپلنری کمیٹی میں زیر بحث ہے، اگر وہ قصور وار ہوا تو اسے یونیورسٹی سے بے دخل اور جرمانہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈسپلنری کمیٹی کے فیصلے میں ابتدائی سفارشات مرتب کرلی گئی ہیں۔ معاملے پر فیصلے کیلئے پیر (6 مئی) کو ڈسپلنری کمیٹی کا اجلاس ہوگا جس میں حتمی سفارشات طے کی جائیں گی۔ ماضی کی طرح اس اجلاس کی کارروائی اور فیصلے بھی میڈیا کو فراہم کئے جائیں گے۔
طالبعلم کیا کہتا ہے
سماء کے پروگرام ’’7 سے 8‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے طہماس علی خان کا کہنا تھا کہ 2017ء کے آغاز میں طالبات کو ہراساں کئے جانے کی باتیں سنیں تاہم سال کے اختتام پر اس حوالے سے ثبوت سامنے آئے۔
انہوں نے کہا کہ 30 اپریل کو ایک درخواست اپنے اور 5 طالبات کے ناموں کے ساتھ جمع کرائی تھی۔ 2 مئی کو ڈیپارٹمنٹ گیا تو دونوں اساتذہ نے میرے ساتھ بدتمیزی کی۔
طہماس خان نے کہا کہ ڈسپلنری کمیٹی میں کیس ہونے کے باعث میری ڈگری رکی ہوئی ہے، تاہم میرے یونیورسٹی میں آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں۔ اس اقدام کا مقصد مجھے اور متاثرہ لڑکیوں کو ڈرانا تھا تا کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں۔ اسی لئے ان کے نام بھی بار بار پوچھے جارہے ہیں۔