اصغر خان کیس کسی صورت بند نہیں ہوگا، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ کہ ایف آئی اے اصغر خان کیس کو بند کرنے کے راستے پر لے جا رہا ہے، لیکن ہم ایسا ہر گز نہیں ہونے دیں گے۔ عدالت نے وزارت دفاع کو دوبارہ رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 22 اپریل تک ملتوی کردی۔

چیف جسٹس، جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں اصغر خان عمل درآمد کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے آغاز پر وزارت دفاع کے نمائندے ڈائریکٹر لیگل بریگیڈئیر فلک ناز پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کیس کی رپورٹ سے متعلق وزارت دفاع سے استفسار کیا، جس پر بریگیڈئیر فلک ناز نے کہا کہ وزارت دفاع اپنی رپورٹ 16 مارچ کو جمع کراچکی ہے۔

اصغرخان کیس،ایف آئی اے کوان کیمرہ بریفنگ دینےکی اجازت مل گئی

جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی رپورٹ ریکارڈ پر موجود نہیں۔ اسے دوبارہ جمع کرائیں۔ عدالت نے ایف آئی اے سے تحقیقات میں تعاون نہ کرنے اور بینک ریکارڈ کی تفصیلات فراہم نہ کرنے والوں کے نام بھی مانگ لیے۔ عدالت نے حکم دیا کہ ایف آئی اے اس بات کی نشاندہی بھی کرے کہ بینک اکاؤنٹس کون چلا رہا تھا۔

چیف جسٹس نے کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ جو ریکارڈ دستیاب نہیں اس کی بھی نشاندہی کی جائے، بتایا جائے کہ جو ریکارڈ ملا نہیں وہ کس کے پاس ہونا چاہیے۔

عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے کیس کو بند کرنے کے راستے پر لے جارہا ہے، لیکن ہم کیس کو مرحلہ وار جاری رکھیں گے، کیس کسی صورت بند نہیں ہوگا۔ عدالت نے ایف آئی اے سے ضمنی رپورٹ بھی طلب کرلی۔ بعد ازاں کیس کی مزید سماعت بائیس اپریل تک ملتوی کردی گئی۔

پس منظر

اس سے قبل سال 2012 میں سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق کیس کا فیصلہ سنایا گیا تھا، فیصلہ ایک سو اکتالیس صفحات پر مشتمل تھا، جسے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے تحریر کیا تھا۔ اور اس وقت کے عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا۔ فیصلے میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ حامد سعید کی ڈائری بھی شامل تھی، جس میں پیسے لینے والوں کا ذکر ہے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں بلکہ سرحدوں کی حفاظت ہے۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت ریاست کا سربراہ ہوتا ہے، صدر حلف سے وفا نہ کرے تو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے۔ صدر کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی ایک گروپ کی حمایت کرے۔ تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ایوان صدرمیں کوئی سیل ہے توفوری بند کیا جائے، اس وقت کے صدر، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کیا، سال 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی، انتخابات مقررہ وقت پر اور بلاخوف و خطر ہونے چاہئیں، تفصیلی فیصلے کے مطابق اسلم بیگ اور ڈائریکٹڑ جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی) اسد درانی غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک ہوئے۔ ان کا یہ عمل انفرادی فعل تھا، اداروں کا نہیں۔

اس کیس کے مرکزی درخواست گزار سربراہ، سابق ایئرچیف مرحوم اصغر خان تھے۔

فیصلے کی اہمیت

اصغر خان نے سپریم کورٹ کو محض درخواست دی جو بعدازاں پٹیشن میں تبدیل کر دی گئی اور اب سابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کی نظرثانی درخواست زیرالتواء ہے۔ یہ کیس اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کرگیا جب آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے حلف نامے میں آرمی چیف کے حکم پر انتخابات کے لئے اپوزیشن سیاست دانوں اور بعض صحافیوں کے درمیان 9 کروڑ روپے تقسیم کرنے کا اعتراف کیا۔

بیگم عابدہ حسین شاید وہ واحد سیاست دان ہیں جنہوں نے پیسے لینے کا اعتراف اور نوازشریف و دیگر نے انکار کیا لیکن جنرل درانی آج بھی اپنے مؤقف اور حلف نامے پر قائم ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ سے جب بے نظیر بھٹو کے اس کیس سے رجوع نہ کرنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ شاید بے نظیر بھٹو کو اسٹیبلشمنٹ پر اعتبار نہیں تھا۔

secret fund

ASLAM BAIG

ASAD DURRANI

asghar khan case

Ghulam Ishaq Khan

Abida Hussain

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div