بلوچستان ہائیکورٹ کا 10 سال سے زیر التواء ترقیاتی اسکیمیں فوری مکمل کرنیکا حکم
بلوچستان ہائیکورٹ نے 10 سال سے نامکمل ترقیاتی اسکیمیں مکمل کرنے کا حکم دے دیا، عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر صوبائی حکومت پر برہمی کا اظہار کردیا۔
بلوچستان ہائی کورٹ میں پی ایس ڈی پی سے متعلق دائر آئینی درخواستوں کی سماعت جسٹس جناب جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس جناب جسٹس محمد کامران خان ملاخیل پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے کی۔
سماعت کے دوران درخواست گزار شیخ عالم مندوخیل، ایڈیشنل چیف سیکریٹری ترقیات سجاد احمد بھٹہ، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شے حق بلوچ، نصیب اللہ ترین ایڈووکیٹ و دیگر عدالت میں پیش ہوئے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ صوبائی حکومت پی ایس ڈی پی کے حوالے سے عدالتی حکم پر عملدرآمد کیوں نہیں کررہی، پی ایس ڈی پی اسکیموں کے حوالے سے ٹینڈرز جاری ہورہے ہیں۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شے حق بلوچ نے بتایا کہ پی ایس ڈی پی کے حوالے سے ٹینڈرز جاری ہوئے تو اسے منسوخ کردیں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ جس نے اسکیموں کے حوالے سے ٹینڈرز جاری کئے اسے سزا دی جائے گی، حکومت خود کو گرم پانی میں کیوں لے جاتی ہے، ہم نے آپ کا کام آسان کردیا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے بینچ کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے پی ایس ڈی پی کے حوالے سے 22 دسمبر 2018ء کے عدالت عالیہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 19 کروڑ 20 لاکھ روپے ریلیز کئے ہیں اور اسی طرح بلوچستان عوامی اندوومنٹ فنڈز کی مد میں بھی خطیر رقم جاری کی ہیں، جس میں اجتماعی شادیوں و دیگر مدوں میں جاری رقوم بھی شامل ہیں جبکہ صوبائی حکومت نے بھی 35 کروڑ روپے سے زائد کی رقم جاری کی جو عدالت عالیہ، عدالت عظمیٰ اور پلاننگ کمیشن کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت عالیہ نے چیف سیکریٹری بلوچستان کو ہدایت کی کہ پی اینڈ ڈی اور ایس اینڈ جی اے ڈی کے افسران پر مشتمل تکنیکی کمیٹی جلد سے جلد تشکیل دی جائیں اور ذاتی نوعیت کی جاری اسکیمیں فوری طور پر پی ایس ڈی پی سے نکال کر عوامی نوعیت کی اسکیمیں فوری طور پر مکمل کی
جائیں، ساتھ ہی نیا پی ایس ڈی پی سپریم کورٹ آف پاکستان اور پلاننگ کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں مرتب کیا جائے۔
جسٹس کامران ملاخیل نے استفسار کیا کہ حکومت نے اجتماعی شادیوں کیلئے 20 کروڑ روپے دیئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ صوبائی حکومت کا یہ عمل سپریم کورٹ کی حکم عدولی ہے۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری ترقیات سجاد احمد بھٹہ نے مؤقف اختیار کیا کہ اس کا باقاعدہ ایک میکنزم تیار ہوا ہے، فیصلہ کسی ایک فرد کی مرضی سے نہیں ہوا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پھر ہم اس کو اس وقت تک روک لیتے ہیں جب تک کوئی قانون نہیں بنتا، عدالتی حکم کا ہمیشہ غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایڈیشنل چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ حکومت کے پاس کوئی پروگرام ہے تو ایڈیشنل چیف سیکریٹری ترقیات نے بتایا کہ میری ٹیم سمیت مجھ پر پر الزام ہے کہ ہم کوئی کام ہونے نہیں دے رہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کھل کر بتائیں، ہم داد رسی کریں گے، اگر آپ حق اور قانون کے مطابق چل رہے ہیں تو گھبرائیں نہیں۔