کرائسٹ چرچ مسجد پر حملہ کرنے والا کون تھا ؟
نیوزی لینڈ پولیس کے مطابق کرائسٹ چرچ مسجد پر حملہ کرنے والے ملزم کی عمر 28 سال ہے اور وہ آسٹریلوی شہری ہے۔
وسطی کرائسٹ چرچ کی مسجد النور اور اس سے 3 کلومیٹر دور لِن وڈ ایونیو پر واقع ایک مسجد میں اس وقت کی گئی جب وہاں جمعے کی نماز ادا کی جا رہی تھی۔ مبینہ حملہ آور نے حملے سے قبل سوشل میڈیا پر ایک پیغام بھی چھوڑا جس میں اس نے تارکینِ وطن کی آمد کو سفید فام افراد کی نسل کشی کے مترادف ٹہرایا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی جانب سے جاری ابتدائی اطلاعات کے مطابق حملہ آور سفید فام ہے۔ تاہم کسی تنظیم یا گروپ سے اس کی وابستگی کی فی الحال کوئی اطلاع نہیں۔ کیوی پولیس کے مطابق حملہ آور نے مکمل منصوبہ بندی کے بعد مسجد میں حملہ کیا۔ پولیس کا مزید کہنا تھا کہ حملہ آور اپنے ساتھ گاڑی میں بم بھی بھر کر لایا تھا۔
حملہ آور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا انتہا پسند تھا، جو دہشت گرد حملے کی ویڈیو فیس بک پر لائیو ٹیلی کاسٹ کرتا رہا۔ حملہ آور حملے کے دوران تارکین وطن اور مہاجرین کے خلاف نازیبا کلمات بھی ادا کرتا رہا۔ کئی منٹ تک فائرنگ کرنے کے بعد حملہ آور دوبارہ اپنی گاڑی تک گیا، اپنی رائفل لوڈ کی اور دوبارہ مسجد کے ہال میں واپس جا کر زخمیوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔
کیوی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ حملہ آور دہشت گردی کی واچ لسٹ میں شامل نہیں تھے۔ پولیس نے 4 افراد کو گرفتار کرکیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں 3 مرد اور خاتون شامل ہیں۔ گرفتار چاروں افراد نے حملے میں مدد فراہم کی تھی۔ گرفتار افراد کی گاڑیوں سے آئی ای ڈی ڈیوائسز نصب تھیں۔ گرفتار افراد سے تفتیش کی جارہی ہے۔ نیوزی لینڈ وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال کے تناظر میں ملک کی سیکیورٹی صورت حال ہائی الرٹ ہے۔
حملہ آور نے اپنی منصوبے کیلئے انٹرنیٹ کا سہارا بھی لیا۔ 28 سالہ حملہ آور نے ہیلمٹ میں لگے کیمرے سے اس تمام تر کارروائی کی لائیو اسٹریمنگ کی۔ حملہ آور نے مسجد پر حملے سے قبل انٹرنیٹ پر اپنی تصاویر اور حملے سے متعلق پوسٹ بھی شیئر کی، جس میں اس نے اپنی شناخت برینٹنڈ ٹینٹ کے نام سے کرائی۔ نماز جمعہ شروع ہونے کے 10 منٹ بعد ہی حملہ آور نے مسجد میں داخل ہوکر فائرنگ شروع کی اور مسجد کے مختلف حصوں میں جاکر نمازیوں کو نشانہ بنایا۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ 28 سالہ حملہ آور جدید ترین مشین گن سے لیس تھا اور اس نے اندھا دھن فائرنگ کی۔ واقعے میں بچ جانے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ حملہ آور نے فائرنگ کے دوران متعدد بار اپنی گن بھی لوڈ کی۔
پولیس کمشنر مائیک بش کے مطابق واقعے کی حاصل ہونے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حملہ آور نے فوجی وردی پہن رکھی تھی۔ پولیس کے مطابق حملہ آور واقعہ کے بعد باآسانی فرار ہوگیا۔ جب کہ پولیس کے مطابق جائے وقوعہ سے ایک مشتبہ شخص کو گرفتار بھی کیا گیا ہے، تاہم اس کی شناخت سے متعلق فی الحال کچھ بتایا نہیں گیا ہے۔
ایجنسی رپورٹ کے مطابق حملہ آور نے النور اور مسجد لینووڈ پر حملہ کیا۔ پولیس کی جانب سے بھی اس بات کی تصدیق کردی گئی ہے۔ حملہ آور کی تلاش کیلئے علاقے کو لاک ڈاؤن کرنے کے بعد کھول دیا گیا۔
ایک فلسطینی عینی شاہد نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اس نے مسجد کے اندر حملہ آور کو نمازیوں کے سروں میں گولیاں مارتے ہوئے دیکھا، 10 سیکنڈ کے قلیل وقت میں تین بار گولیاں چلنے کی آواز سنی، جس سے لگتا ہے کہ حملہ آور کے پاس انتہائی جدید مشین گن تھی۔ ایک اور عینی شاہد کے مطابق وہ مسجد ڈین ایوینیو کے اندر تھا، جب اس نے باہر سڑک پر فائرنگ سنی اور کھڑکی سے باہر دیکھا تو اس کی بیوی کی لاش سڑک پر پڑی تھی، وہ فورا وہاں سے بھاگ نکلا۔ ایک اور عینی شاہد نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے حملہ آور کو بچوں کو بھی نشانہ بناتے ہوئے دیکھا۔
حملے کے بعد پولیس کی جانب سے نیوزی لینڈ کی تمام مساجد میں لوگوں کو جانے سے روکنے کے اعلانات بھی کیے گئے۔ پولیس کے مطابق تاحکم ثانی لوگ مساجد کا رخ نہ کریں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مساجد کے اندر اور حاصل شدہ فوٹیج انتہائی خوف ناک ہے، جسے حساس ہونے کی وجہ سے شیئر نہیں کیا جائے گا۔
واقعہ پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی جانب سے اسے سیاہ ترین دن قرار دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ نیوزی لینڈ میں پستولوں سے متعلق سخت قوانین رائج ہیں، سال 1992 میں ذہنی معذور شخص کی جانب سے فائرنگ سے 13 افراد کی ہلاکت کے بعد ان قوانین کو مزید سخت کیا گیا۔ سخت قوانین کے تحت ہر کوئی سیمی آٹو میٹک رائفل نہیں خرید سکتا۔ تاہم 16 سال سے زائد عمر کے افراد جو گن خریدنا چاہتے ہیں وہ اسٹینڈرڈ فائر آرم لائسنس کے تحت کورس مکمل کرکے کیلئے درخواست دے سکتے ہیں اور چھوٹی گن کورس کی کامیابی کے بعد خریدنے کے مجاز ہیں۔
واضح رہے کہ نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 2013ء کی مردم شماری کے مطابق ایک فی صد سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ ملک میں 50 ہزار کے لگ بھگ مسلمان آباد ہیں جن میں اکثریت دوسرے ملکوں سے آنے والے تارکینِ وطن کی ہے۔