مادری زبانوں کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’’مادری زبان کا عالمی دن‘‘ آج 21 فروری کو منایا جا رہا ہے۔
مادری زبان کا عالمی دن منانے کا خیال بنگلہ دیش سے آیا جس کی منظوری 1999 میں یونیسکو جنرل کانفرنس میں دی گئی اور سال 2000 سے دنیا بھر میں عالمی مادی زبان کا دن منایا جانے لگا۔
یونیسکو کی تحقیق کے مطابق مجموعی طور پر دنیا کی 40 فی صد آبادی اس زبان میں تعلیم تک رسائی نہیں رکھتی جسے وہ بولتے یا سمجھتے ہیں۔
زبانوں سے متعلق تحقیق کرنے والی ایک ویب سائٹ ایتھنالوگ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 74 زبانیں بولی جاتی ہیں جس میں سے 66 زبانیں مقامی اور 8 زبانیں غیر ملکی ہیں۔ اس کے علاوہ 7 زبانیں تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی، 17 پروان چڑھ رہی، 39 زیادہ بولی جاتی، 9 مشکلات کا شکار اور 2 زبانیں معدوم ہو رہی ہیں۔
تحقیق کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ عام زبان پنجابی ہے جسے 48 فیصد افراد بولتے ہیں جبکہ 12 فیصد سندھی، 10 فیصد سرائیکی، انگریزی اور اردو، 8 فیصد پشتو، 3 فیصد بلوچی، 2 فیصد ہندکو اور ایک فیصد افراد براہوی زبان بولتے ہیں۔
مادری زبان کے عالمی دن کی مناسبت سے سماء ڈیجیٹل نے لمز یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس سے بات کی، جن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عام طور پر 10 سے 12 زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ان کی مختلف شاخوں سے زبانوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
مادری زبان میں تعلیم دینے سے متعلق سوال پر ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے کہا کہ یہ بحث درست نہیں کیونکہ اردو زبان، فرانسیسی یا جرمن جیسی نہیں کہ جس میں تعلیم حاصل نہ کرکے کوئی بڑا نقصان ہو، البتہ مادری زبان کی اہمیت ثقافتی جڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پچھلے دو سال سے ’’زبانوں کو محفوظ‘‘ کیے جانے سے متعلق پاکستان میں کام کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے منعقدہ کانفرنسز میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ والدین اپنے بچوں سے مادری زبان میں بات چیت کریں تاکہ زبانیں زندہ رہیں۔
سال 2016 میں کی جانے والی ایک جامع تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں 7 ہزار 4 سو 57 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے 360 مردہ یا متروک ہوچکی ہیں۔