کالمز / بلاگ

کیا کینسر بلوچستان کو نگل جائے گا؟

بلوچستان کو قدرت نے ہر دولت سے مالا مال کر رکھا ہے، قدرت کے خزانے میں شاید ہی کوئی ایسی نعمت ہو جو بلوچستان کے حصے میں نہ آئی ہو، مگر اس کے  باوجود آج بھی بلوچستان ایک عہد پارینہ کا منظر پیش کرتا  نطر آتا ہے جہاں زندگی کی بنیادی ضرورت کے لیے بھی یہاں انسانوں کو روز جدوجہد کرنا پڑتی ہے، جہاں جینے کے لیے روز مرنا پڑتا ہے۔

بلوچستان اس وقت کینسر جیسے موذی مرض کی شدید لپیٹ میں ہے، شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہو جب بلوچستان کے کسی کونے سے کینسر زدگی کے شکار کسی مریض کی خبر نہیں آتی ہو، اور اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ ان مریضوں میں بیشتر تعداد بچوں اور نوجوانوں کی ہے۔ پھر گزشتہ چند برسوں میں کینسر نے بلوچ نوجوانوں کا تو جیسے گھر ہی دیکھ لیا ہو، ایسے ایسے بانکے نوجوان اس مرض کی بھینٹ چڑھ گئے کہ جن کے زکر پر ہی آنکھوں کے کناروں پر نمی در آتی ہے، ان نوجوانوں میں مستقبل کے سہانے خواب آنکھوں میں سجائے ایسے کتنے ہی زہین و فطین طالب علم تھے جو یقینا بلوچ قوم کا اثاثہ تھے، جن کی آنکھوں کی روشنی اور چمک کینسر زدگی میں بھی ماند نہ پڑی، مگر اب وہ ہم میں نہیں اور اب بھی ایسے کتنے ہی نوجوان ہیں جو ہر روز اس عفریت کے شکنجے میں کستے جا رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں بلوچی زبان کے نامور ادیب  ظفر اکبر کے نوعمر فرزند حمل ظفر میں خون کے سرطان کی تشخیص ہوئی، اور جب اس کے علاج کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا تو یہ رقم 70 لاکھ سے  تجاوز کر گئی تھی، حمل کے اہلخانہ نے اپنی تہی دامنی کی وجہ سے بلوچ قوم سے حمل کی زندگی مانگ لی اور پھر سب نے دیکھا کہ 70 لاکھ کی یہ خطیر رقم محض 4 دن کی جدوجہد کے بعد جمع ہوگئی، حمل کو نئی زندگی مل گئی۔

مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں ایسے کتنے ہی معصوم حمل ہوں گے جو جینا چاہتے ہوں گے مگر موت کے بے رحم عفریت کے سامنے وہ ہار جاتے ہوں گے۔ ایسے کتنے ہی مظلوم ماں باپ اپنی آنکھوں کے سامنے ہی اپنے بچوں کو ہر روز قطرہ قطرہ مرتے دیکھتے ہوں گے، مگر ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا سوائے اپنے جگر گوشوں کو پھولوں کا کفن دینے کے، ایک حمل کے لیے رقم جمع ہونے پر ہر ماں نے اپنے جگر گوشے کی زندگی کے لیے بلوچ قوم سے مدد مانگ لی مگر کیا صرف چندے سے کینسر زدگی کے مارےاتنے سارے گلاب مرجھانے سے بچائے جا سکتے ہیں؟؟

ایک محتاط اندازے کے مطابق بلوچستان میں اس وقت 10 ہزار سے زائد کینسر کے مریض موجود ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے جن میں خواتین میں چھاتی کے کینسر کا مرض نمایاں ہے، دوسری طرف اتنے سارے مریضوں کے لیے بلوچستان حکومت کی جانب سے بنائے گئے بی ایم سی کے کینسر وارڈ کو ملنے والی رقم بھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے، دوسری طرف اپنے پیاروں کو شدید تکلیف میں مبتلا دیکھ کر اور حکومتی عدم توجہی اور بلوچستان میں کینسر اسپتال نہ ہونے کے باعث بیشتر مریض کراچی اور لاہور کا رخ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

اس وقت بلوچستان میں کینسر اسپتال کا مطالبہ بھی مزید زور پکڑتا جا رہا ہے، اس مطالبے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی این پی سربراہ اختر مینگل کو اپنے معروف چھ نکات میں ایک نکتہ بلوچستان میں پہلے کینسر اسپتال کی تعمیر کا رکھنا پڑا، گو کہ ان کے چھ نکات کو وفاقی حکومت کتنا سنجیدہ لے رہی ہے یہ سب جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود بلوچستان کے عوام ہمیشہ کی طرح اس امید پر زندہ ہیں کہ شاید وزیر اعظم عمران خان کو کسی دن اس بات کا احساس ہو ہی جائے کہ بلوچستان میں بھی انسان بستے ہیں۔

cancer hospital

cancer disease

Health problem

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div