آواز خلق

سانحہ ساہیوال ایک نشتر بن کر عوام کی رگوں میں اتر گیا ہے۔ الفاظ اس دکھ کی عکاسی نہیں کر سکتے جو رگوں کو چیر رہا ہے۔ شور بڑھتا جا رہا ہے مگر آواز ِدستار خاموش ہے۔ سربلندی محترم ہے مگر تقاضائے وقت ہے صاحب کے جلتے دلوں پر مرہم رکھا جائے۔نامعلوم سے معلوم تک کا سفر طے کیا جائے۔خونی درندوں کو بتایا جائے کہ انسانی جان بے قیمت نہیں ہوتی اور ماں باپ تو بالکل بھی بے قیمت نہیں ہوتے کہ انہیں مار دیا جائے تو کوئی اور مل جائیں گے۔ ان درندوں سے پوچھا جائے کہ مردہ لوگوں کی تصویریں بھیجنے کی بجائے زندہ لوگوں کی تصدیق بھی تو ہو سکتی تھی۔مخبر کی اطلاع پر پوم ورک کر کے کارروائی ہو سکتی تھی۔ نامعلوم ادارے اپنے احکامات پر نظر ثانی کر سکتے تھے۔ہونے کو کچھ بھی ہو سکتا تھا،گولیاں مارنے سے پہلے سوچا جا سکتا تھا،انسانیت کا بھولا سبق یاد کیا جا سکتا تھا،بچے یتیمی کا لبادہ نہ اوڑھتے مگر ایسا ہو سکتا تھا اگر نامعلوم افراد کو پکڑے جانے کا خوف ہوتا۔ قانون کے ہاتھوں نے دستانے نہ پہنے ہوتے تو بچوں کے جسموں پر ان کی ماں کے خون کا قرض نہ چڑھتا۔
الفاظ دکھ کا مداوا کر سکتے تو اب لکھے جانے والے لفظوں سے ان بچوں کے دکھ کا مداوا ہو جاتا۔ان کے اپنے انہیں واپس مل سکتے تو وہ ضد کر کے واپس لے آتے مگر ایسا کچھ نہیں ہو سکتا۔ تو کیا ہو سکتا ہے پھر کہ ذمہ دار افراد کی پشت پناہی نہ کی جائے،قربانی کے بکرے نہیں چاہیے،ذمہ دار افراد کو سامنے لایا جائے،حکمران وقت سے درخواست ہے کہ دکھ کو محسوس کرنے کے بعد اس کے مداوے کے لیے عمل بھی کریں۔ اب عوام کو آئینہ دیکھنے کی بجائے آپ کی طرف دیکھنے کی عادت پڑ گئی ہے۔
افسرانِ سی ٹی ڈی اور حکامِ بالا آپ کوایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے کتنے جھوٹ بولنے پڑیں گے۔ معصوم لوگوں کو دہشت گرد بنانے کے لیے کتنا ہوم ورک کرنا پڑے گا ۔اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کے لیے کتنا ایندھن اکٹھا کرنا پڑے گا جو آپ کو دوزخ میں جلنے کے لیے درکارہوگا۔ بہتر ہے کہ ان سہمی ہوئی روحوں کو بھی مار دو، اب آپ ان سے بھی جینے کا حق چھین چکے ہو۔ہو سکتا ہے کہ آپ لوگ یہاں اس جہان فانی میں بچ بھی جائیں مگر کیا روز محشر میں خراج نہیں دینا پڑے گا۔ چلو بچ بھی جاتے ہو تو اپنے لیے ٹرنکو لائزرز کا انتظام کر لو تاکہ اب چین کی نیند نہیں آنے والی۔ بے سکونی کے عالم میں ان بچوں کے آنسوؤں سے بھیگے بغیر نہیں رہ سکو گے اور منصف صاحب آپ بھی حشر اٹھائیے کہ عوام کے اٹھنے کا انتظار کر رہے ہیں،صدمے سے نکلیے،تختہء دار کی جھاڑ پونچھ کروائیے، محکمانہ صفائی کروائیے تاکہ اب اس میں فرض شناسی کی بجائے بھیڑیے جیسے درندے کی جبلت دکھنے لگی ہے۔
ملکی معیشت کی مضبوطی کے لیے قرض لینے کے ساتھ ساتھ فرض ادا کرنا بھی سیکھیے تا کہ اس کی قضا ممکن نہیں،تین کی گنتی بھی پوری ہو چکی،سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ کراچی اور اب سانحہ ساہیوال کا خون منہ کو لگ چکا ہے۔ انسانی بستیوں میں اجاڑ ڈالنے کی عادت پڑ چکی ہے۔اب کی بار مداوا نہ ہوا تو عوام تبدیلی کا انتظار کرنے کی بجائے خود تبدیل ہو جائیں گے اور یہ بھی مت سوچیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس معاملے پر گرد جم جائے گی۔کچھ جنازے دفن ہونے کے بعد لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جاتےہیں۔آپ لاکھ کوشش کر لیں وہ مٹی کا رزق نہیں بنتے۔یہ بھی کوئی ایسی ہی صورت ہے،ایک بار سبتگین نے ماں کی بے چینی پر ہرنی کا بچہ چھوڑ دیا تھا تو کیا رب کائنات ایک ماں کی قربانی کو ضائع جانے دے گا۔ حکمرانی کے نشے میں چور ہونے کی بجائے ایکشن لیجیے ۔