کالمز / بلاگ

تعلیم اور پاکستان

اسلام میں حصول علم کو بہترین عمل قرار دیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سب سے پہلے علم اور پڑھنےسے ہی اپنے کلام کا آغاز کیا کیونکہ علم انسان کو صحیح کا راستہ بتاتا ہے اور اسےاس قابل بنادیتا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کو اپنی خواہشات کے مطابق بہتر بناسکے، انسان اور حیوان میں فرق تعلیم کی بدولت ہے کیونکہ تعلیم ہی وہ راستہ ہے جس کو حاصل کرنے کے بعد انسان صحیح معنوں میں انسان بنتاہے۔ پاکستان کو آزاد ہوئے باسٹھ سالوں سے ذیادہ ہوچکے ہیں اور ان پچھلے کئی عشروں میں بہت سی تعلیمی پالیسیاں مرتب کی گئی ہیں مگر ہمارا تعلیمی نظام اب تک صرف پالیسیوں اور کاغذوں کی حد تک ہی ترقی کر سکا ہے جوکہ ایک لمحہ فکریہ ہے، باوجود اس کے یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے چھ بڑے ممالک کی فہرست میں آتا ہے جن میں حکومتیں تعلیمی ترقی کے حوالے سے ناکام رہی ہیں اور لوگ آج بھی بنیادی تعلیم سے محروم ہیں اور اس بڑی وجہ وسائل کا نہ ہونا، حکومتوں کا تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری نہ کرنا، مقامی زبانوں میں نصاب کا نہ ہونا اور مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم کا یکساں نہ ہونا ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے پبلک اداروں سے بالکل الگ ہٹ کر کام کر رہے ہیں اور ضرورت سے ذیادہ مہنگی تعلیم ہر کسی کے بس میں نہیں، آج تعلیم کی ترویج، ترقی اور معیار کے نام پر ناصرف لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے بلکہ سرمایہ داروں کی چالاکی اور عیاری نے شعبہ تعلیم کو ایک منافع بخش تجارت اور انڈسٹری کی شکل دے دی اور تعلیم منافع بخش تجارت بن گئی۔ تعلیم جو قوموں کی ترقی کا سب سے مؤثر ہتھیار تھا آج وہ تعلیمی مافیا کے قبضے میں ہے تعلیمی اداروں کے انتظامیہ میں مشنری جذبے کی کمی کے باعث علم حاصل کرنے والوں اور علم باٹنے والوں کے درمیان محبت و اخلاص کا فقدان پایا جاتا ہے، سرمایہ دارانہ نظام نے ملک کے ہر شعبے کو بالخصوص تعلیمی شعبے کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اچھے اور مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کو آگے بڑھنے کے مواقع ملتے ہیں جبکہ عام اسکولوں میں پڑھنے والے بچے پیچھے رہ جاتے ہیں اور زندگی میں آگے نہیں بڑھ پاتے اس کا نتیجہ یہ ہی ہو گا کہ امیر امیر تر ہو گا اور غریب غریب ہی رہے گا۔ جب تک حکومت سنجیدگی سے تعلیم کے شعبہ میں سرمایا کاری نہیں کرے گی اور ہم اس بات کو سنجیدگی سے نہیں سوچیں گے کہ تعلیم کے بغیر معاشی اور معاشرتی ترقی نہ ممکن ہے اس وقت تک ہم ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل نہیں ہو سکتے۔ مسلمان کبھی جدید تعلیم سے دور نہیں رہے بلکہ جدید زمانے کے جتنے بھی علوم ہیں زیادہ تر کے بانی مسلمان ہی ہیں۔ موازنہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ آج یورپ تک کی جامعات میں مسلمانوں کی تصنیف کردہ کتابیں نصاب میں شامل ہیں، مغرب کی ترقی کا راز صرف تعلیم ہے اور اسی تعلیم کے بل پر انہوں نے پوری دنیا پر راج کیا ہے جبکہ مشرق کے زوال کی وجہ تعلیم کا نہ ہونا ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ترقی کریں تو ہمیں اپنی تعلیمی اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا، آج تک جن قوموں نے ترقی کی ہے وہ صرف علم کی بدولت کی ہے صرف علم حاصل کرنا ضروری نہیں بلکہ اس کا اطلاق بھی ضروری ہے بالکل اسی طرح صرف خواہش کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اسکے حصول کے لیے عمل بھی کرنا چاہئیے اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کو زیادہ سے زیادہ عام اور سستا کیا جائے تا کہ کوئی بھی تعلیم سے محروم نہ رہ جائے اور سب کو یکساں مواقع میسر آسکیں، تب جاکر ایک پڑھا لکھا معاشرہ تشکیل پا سکے گا بحثیت قوم اگر ہم ترقی کرنا چاہیے ہیں تو سنجیدگی سے تعلیم کے حوالے سے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ ہمیں چاہئیے کہ تعلیم حاصل کریں اور اس کا صحیح استعمال کریں تو وہ دن دور نہیں کہ جب ہم دنیا کے ان ممالک میں شمار ہونا شروع ہو جائیں گے جو جدید علوم سے اگاہی رکھتے ہیں۔۔۔

Text books

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div