کالمز / بلاگ

بلدیاتی ضمنی انتخابات، کراچی نے فیصلہ سنادیا

بلدیاتی ضمنی انتخابات میں کراچی کی عوام نے فیصلہ سُنا دیا، نتائج سامنے آنے کے بعد ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے اس الزام کو تقویت ملی ہے کہ 25 جولائی 2018ء کو ہونیوالے عام انتخابات میں دھاندلی کی گئی، کراچی میں 22 بلدیاتی نشستوں پر ہونیوالے ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم نے 11 نشستیں حاصل کیں، جن میں ایک چیئرمین، 2 وائس چیئرمین اور 7 کونسلرز نشستیں ہیں، پیپلز پارٹی نے مجموعی طور پر 8 سیٹیں جیتیں، دو چیئرمین، ایک ممبر ڈسٹرکٹ کونسل اور 5 کونسلرز جبکہ آزاد امیدواروں نے 2 نشستیں اور تحریک انصاف نے ایک چیئرمین اور عوامی نیشنل پارٹی نے ایک کونسلر نشست پر کامیابی حاصل کی۔

شہر قائد کی بات کی جائے تو 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں سب سے بڑا دھچکا ایم کیو ایم پاکستان کو لگا تھا اور کراچی سے تحریک انصاف نے حیران کردینے والے کامیابی حاصل کی تھی، حیران کردینے والی کامیابی اس لئے کہ بہت سے صوبائی حلقوں میں ایم کیو ایم کے اراکین منتخب ہوئے مگر قومی اسمبلی کی نشستیں تحریک انصاف کے حصے میں آئیں، عام انتخابات میں بدترین ناکامی کا سامنا کرنیوالی ایم کیو ایم پاکستان کی ضمنی انتخابات میں بلدیاتی نشستوں پر فتح متحدہ کے ہمدردوں کیلئے اطمینان بخش ہے، کراچی سے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی کامیابی اور حکمران جماعت تحریک انصاف کی ناکامی اہمیت رکھتی ہے۔

کراچی سے ایم کیو ایم پاکستان کا بلدیاتی ضمنی انتخابات میں برتری حاصل کرنا حیران کن نہیں کیونکہ ایک زمانے تک کراچی پر ایم کیو ایم نے راج کیا ہے لیکن تحریک انصاف جس نے 25 جولائی کے عام انتخابات میں کراچی سے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے سب کو حیران کردیا تھا وہ صرف ایک نشست پر کامیابی حاصل کرسکی، جس نے کئی سوالوں کو جنم دے دیا ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کراچی سے کوئی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکی جو حکمران جماعت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ تحریک انصاف نے عام انتخابات سے قبل کراچی کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اگلا وزیراعظم کراچی سے ہوگا مگر عمران خان نے منتخب ہوکر کراچی کی نشست چھوڑ دی اور یہ بات کراچی والوں کو کافی ناگوار گزری۔

ضلع ملیر میں یوسی 11 وائس چیئرمین کی نشست پر ایم کیو ایم کے کارکن اور ضلع ملیر یوسی 12 جام مراد علی کی ممبر ڈسٹرکٹ کونسل کی نشست پر آزاد امیدوار نے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو شکست دی۔ ملیر وہ ضلع ہے جس کیلئے نعرہ ’’پی پی کا قلعہ ملیر ضلع‘‘ مشہور ہے، ضلع ملیر کی طرح ضلع جنوبی میں بھی ہمیشہ پیپلز پارٹی کا راج رہا ہے، جہاں عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو تحریک انصاف کے امیدوار شکور شاد نے شکست دی تھی مگر ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو ضلع جنوبی سے امیدوار تک نہ ملے۔

ضلع جنوبی میں 6 جنرل نشستوں پر انتخابات ہوئے جن میں 3 نشستوں پر ایم کیو ایم پاکستان اور 3 نشستوں پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور تحریک انصاف کے حصے میں انڈہ آیا۔

سیاسی جماعتوں کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ جیت کا جشن مناتے ہیں اور شکست کے بعد دھاندلی کا شور مچاتے ہیں، کسی بھی سیاسی جماعت کی کامیابی و شکست میں تنظیم سازی اور کارکنوں کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے اس لئے سیاسی جماعتوں کو شکست کے بعد دھاندلی کا شور مچانے کے بجائے تنظیم سازی پر دھیان دینا چاہئے۔ ضمنی بلدیاتی انتخابات کے ذریعے کراچی کے عوام نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ قوم جاگ رہی ہے اور جو بھی جماعت عوام سے رابطہ نہیں رکھے گی اس کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

PTI

LOCAL BODIES

Bye Election

بلاگ

Tabool ads will show in this div