مکافاتِ عمل
احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید اور 25 ملین ڈالر جرمانہ کی سزا سنائی۔ اس کے علاوہ نواز شریف کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم جاری کیا گیا مگر باوجوہ فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کو باعزت بری کردیا گیا۔
مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا لوٹی ہوئی دولت واپس آنے والی ہے؟؟؟
اس کا جواب یہ ہے کہ تمام تر عدالتی فیصلوں کے باوجود ہمارے لیگل سسٹم میں اتنی خامیاں ہیں کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کےلیے شاید برسوں لگ جائیں۔ ممکن ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کی زندگیوں میں لوٹی ہوئی دولت واپس آنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے کیونکہ قانونی پیچیدگیاں اور نقائص، جنہيں دور کرنا ضروری تھا، کبھی توجہ ہی نہ دی گئی۔ ہمارے ملک میں چہروں کے بدلنے سے بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ لہٰذا اگلے عام انتخابات کے نتائج بھی اس ضمن میں کافی حد تک اثر انداز ہوں گے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ مراحل سست روی سے ہی عبور ہونے ہیں تو پھر یہ سوال توجہ طلب ہے کہ اس احتسابی عمل سے ہمیں کتنا ریلیف ملا؟؟؟ ظاہر ہے ہم اربوں ڈالر کے غیر ملکی سودی قرضوں کے چنگل میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا وزیراعظم سودی قرضوں کی مد میں ادائیگیوں کےلیےغیر ملکی امداد مانگ رہا ہے تاکہ ڈوبی ہوئی معیشت کی کشتی کو قرضوں کے سمندر سے نکالنے کےلیے کچھ تدبیر ہوسکے۔ ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ اس تمام تر صورتحال کے باوجود احتسابی عمل سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے میں ناکام رہتے ہیں تو قصوروار ہمارا لیگل سسٹم قرار پائے گا۔
آصف علی زرداری اور ملک ریاض کو بھی جعلی اکاؤنٹس کیس میں نوٹسز جاری ہوئے ہیں جو کہ ایک بہت بڑی پیشرفت ہے۔
منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے آصف زرداری کے متعلق جو ہوشربا انکشافات کیے ہیں وہ سن کر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ان الفاظ کی تائید کرنا پڑ گئی ہے کہ ’’منی لانڈرنگ کو سمجھنے کےلیے صدیوں تک آصف زرداری کی داستان کا ذکر رہے گا‘‘۔
اب بھی اگر کچھ لوگ پارٹی وابستگی کی بنیاد پر اپنے قائدین کا دفاع کر رہے ہیں تو یہ ایک افسوسناک پہلو ہے کہ ملک و قوم سے زیادہ پارٹی قیادت زیادہ اہم ہوگئی ہے۔ غریب عوام کا پیسہ بے دریغ لوٹا گیا مگر کسی کو ملال نہیں ہوا۔ اگر کچھ لوگوں کو رنج والم ہے تو شاید احتساب سے، جس کی وجہ سے احتساب کو انتقامی کارروائی قرار دے کر عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کیے جارہے ہیں۔ دراصل یہ کوئی انتقامی کارروائی نہیں بلکہ مکافاتِ عمل ہے۔ انسان اگر اپنے راستے میں خود کانٹے بوئے تو پھر راستے پھولوں سے کیسے سج سکتے ہیں؟؟؟ مریم نواز کا دکھ سمجھنے والوں کو سانحہ ماڈل ٹاون میں قتل ہونے والی تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ کا تو کبھی خیال بھی نہ آیا ہوگا۔ آصفہ زرداری کا دکھ سمجھنے والوں کو تھر کی ان ماوں کا تو کبھی خیال نہیں آیا ہوگا کہ جن کی گودیں آئے روز اجڑ رہی ہیں۔ جہاں تک اس الزام کا تعلق ہے کہ احتساب کے نام پر اپوزیشن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو موجودہ حکومت کو اس احتساب کا کریڈٹ سرے سے دیا ہی نہیں جاسکتا۔ اگر اس وقت کوئی احتساب کر رہا ہے تو وہ متعلقہ ادارے کر رہے ہیں اور جرم ثابت ہونے پر سزائیں عدالتوں میں سنائی جا رہی ہیں اور عدالتیں مکمل طور پر آزاد ہیں۔ تو پھر اگر احتسابی عمل کا کریڈٹ دینا ہی ہے تو متعلقہ اداروں اورعدلیہ کو دینا چاہیے۔ حیرت ہے کہ اپوزیشن اپنی مرضی سے پبلک اکاونٹس کمیٹی کا چیئرمین لاکر بھی ’’انتقامی کارروائی‘‘ کا الزام عائد کر رہی ہے۔ حکومت ہی نے شہبازشریف کےلیے منسٹرز کالونی کو سب جیل قرار دیا ہے۔ اتنی ساری رعایتیں دینے کے بعد تو حکومت موجودہ احتسابی عمل کا کریڈٹ لینے کی کسی طور پر بھی مستحق نہیں رہی۔ اگرچہ وزیراعظم نے خود بھی اس ضمن میں وضاحت پیش کی ہے مگر یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ محض وضاحت کرکے مطمئین کیا جاسکے۔
آنے والے دنوں میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی ’’بچاو‘‘ مہم کےلیے ایک پیج پر ہوں گی جس سے پارلیمنٹ مفلوج ہونے کا بھی امکان ہے، جس کے لیے حکومت کو تیار رہنا چاہیے۔