کالمز / بلاگ

کردار میں ڈھل جانے والا اداکار

پاکستان ٹیلی وژن نے اپنے آغاز سے ہی  دیکھنے والوں کے لیے ایسے  یادگار مزاحیہ ڈرامے پیش کئے جو آج بھی ذہن پر نقش ہیں۔ابھی  پی ٹی وی اپنے پیروں پر پوری طرح سے کھڑا بھی نہ ہو پایا تھا کہ اس پر چلنے والا ڈرامہ سیریل "لاکھوں میں تین"دیکھنے والوں کے دل میں گھر کرگیا۔  شاید یہ پی ٹی وی پر چلنے والوں مزاحیہ ڈراموں کا نکتہ آغاز تھا اور یہیں سے اسٹیج،ٹی وی اور فلموں کے ورسٹائل فنکار علی اعجاز کی شہرت کا آغاز ہوا۔

اکیس اکتوبر 1942ء کو قلعہ گوجر سنگھ لاہور  میں پیدا ہونے والے علی اعجاز اپنے دوستوں منور ظریف اور اُن کے بڑے بھائی ظریف سے بہت متاثر تھے اور ان کی طرح  ہی نام کمانا چاہتے تھے،مگر یہ سب کچھ اتنا آسان بھی نہ تھا، اس کے لیے کڑی تپسیا کے ساتھ  ایک عدد چانس کی ضرورت تھی جوانھیں بالآخرعتیق اللہ شیخ کی بدولت ریڈیو پاکستان سے ملا،پھر ریڈیو سے علی اعجاز کایہ سفر انھیں اسٹیج کی طرف لایا،اسٹیج سے ٹی وی اور پھر فلمیں غرض" وہ آیا اس نے دیکھا اور فتح کر لیا "کے مصداق اس ورسٹائل اداکار نے ہر میڈیم میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔

ایک وقت میں علی اعجاز کی جوڑی رفیع خاور ننھا کے ساتھ بہت مشہور ہوئی ،دونوں نےایک ساتھ بہت کام کیا اور خوب کام کیا،فلموں کی چکاچوند اور مصروفیت کے باوجود بھی علی اعجاز نے پی ٹی وی سے اپنا رشتہ بنائے رکھا،ان کے مشہور ڈراموں دبئی چلو،سوناچاندی ،شیدا ٹلی، اورخواجہ اینڈ سنزمیں نبھائے جانے والے کردار آج بھی ذہن میں آجائیں تو بے اختیار چہرے پرمسکراہٹ آجاتی ہے۔

پی ٹی وی کے شہرہ آفاق سیریل خواجہ اینڈ سنز کے ہدایتکار ایوب خاور ایک عہد ساز ہدایتکار ہیں، وہ علی اعجاز کے بارے میں کہتے ہیں   کہ" علی اعجاز ایک الگ طرح کے اور"کردار ساز"اداکار تھے جو اسکرپٹ کو پانی کی طرح دماغ کے معدے میں گھول دیتے تھے،میں نے انھیں اسٹیج پر کام کرتے دیکھا اوران کے ساتھ کام کرنے کی خواہش بحی تھی جو بعد میں خوش قسمتی سے پوری بھی ہوئی،علی اعجاز  فلموں میں جانے کے بعد بھی ٹی وی کے میڈیم کو نہیں بھولے تھے،تبھی جب میرے لیے خواجہ اینڈ سنز کی کہانی عطا الحق قاسمی لکھ رہے تھے تو ہم نے طے کیا تھا کہ اس میں خواجہ صاحب کا کردار علی اعجاز صاحب سے کرایا جائے گا اور یہ  جو ہمارا فیصلہ تھادرست ثابت ہوا۔ایوب خاور کہتے ہیں کہ فلم کے ماحول نے بھی علی اعجاز کا  کچھ نہیں بگاڑا،وہ سیٹ پر سب کے ساتھ گھل مل جانے والے شخص تھے جو اپنی صلاحیتوں کو چھپانے کے بجائے تقسیم کرنے کے عادی تھے،ایک اداکار تب تک بڑا اداکار نہیں ہوتا جب تک وہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کا مائیکرو اسکوپ اسٹڈی کرنےکا قائل نہ ہو اور علی اعجاز میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود تھی"۔

علی اعجاز صرف فن کے شعبے میں نہیں بلکہ سماجی شعبے میں بھی بہت زیادہ متحرک تھے،ان کی خواہش تھی کہ وہ معمر افراد کے لیے ایک اولڈایج ہوم کی تعمیر کریں جہاں اپنوں اور معاشرے کے دھتکارے  ہوئے معمر افراد عزت کے ساتھ زندگی گزارسکیں۔اس کے علاوہ بھی وہ اکثر سماجی کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔

ان کے ناگہانی انتقال پر جہاں ان کے لاکھوں پرستاروں کو گہرا صدمہ پہنچا وہیں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے بھی معروف اداکار کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ "آج پاکستان ایک ورسٹائل اداکار سے محروم ہو گیا ہے،وزیر اطلاعات نےعلی اعجاز کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ فن کی دنیا میں علی اعجاز کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ان کا کہناتھا کہ علی اعجاز نے مزاح کو ایک نیا ڈھنگ دیا۔علی اعجازکے سنجیدہ کردار بھی لوگ کئی سال گزر جانے کے با وجود بھول نہیں سکے"۔

علی اعجاز کو ان کی فنی خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان نے 14اگست 1993کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی بھی عطا کیاتھا اور آج اپنے کردار میں ڈوب جانے والا یہ ستارہ ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔

LOLLYWOOD

Ali Ejaz

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div