کالمز / بلاگ

گورنر ہاوس سہی ،گرشاہراہیں بھی

برطانوی ہند نے 1856ء میں کوئٹہ پر قبضے کی منظوری دیدی تھی ۔علیٰ ہذا 1877ء میں کوئٹہ کوباقاعدہ انگریز کی قلمروں میں شامل کر لیا گیا ۔عسکری اور دوسرے ماہرین سمیت فوجی دستے پہنچ گئے ۔کوئٹہ چھاؤنی کے قیام کیلئے زمین مختص کی گئی اور ساتھ ہی تعمیر کا کام شروع کر دیا گیا ۔رہائشی علاقے،شاہراہوں کی تعمیر ، اسی طرح کوئٹہ کو برطانوی ہند کے دوسرے شہروں سے منسلک کرنے کی خاطر ریلوے لائن اور بڑی شاہراہوں پر کام شروع ہوا۔

کوئٹہ کا قدیم قلعہ جسے ’’میری ‘‘ بھی کہا جاتا ہے 1877ء تک خان آف قلات کے تصرف میں تھا ۔چناں چہ اس سال کے جولائی میں قلعہ بھی انگریز نے اپنے اختیار و انتظام میں لے لیا۔ ہند کی حکومت نے کوئٹہ میں گورنر جنرل کے ایجنٹ کی رہائش کے لیے ریزیڈنسی کی تعمیر اور ساتھ ہی پہلے اسسٹنٹ اور میڈیکل آفیسر کے مکانات اور فوجیوں کی رہائش گاہوں کی تعمیر کی منظوری دے دی۔ اس کام پر دو شاہی انجینئر لیفٹیننٹ’’ ہیوسن‘‘ اور لیفٹیننٹ ’’کین یارڈ‘‘ مامور کر دئیے گئے تھے۔ ریذیڈنسی کی عمارت پر کام تیزی سے جاری و ساری تھا کہ اس اثناء کوئٹہ کے بازئی قبائل کے چار افراد نے انگریز عملہ پر تلواروں اور خنجروں سے حملہ کر دیا۔ انجینئر لیفٹیننٹ ہیوسن قتل ہوا ،لیفٹیننٹ کین ہارڈ اور ایک ہندوستانی سپاہی زخمی ہو گیا۔ حملے کی اطلاع پاتے ہی مزید سپا ہیوں نے پہنچ کر بازئی قبائل کے افراد کو نشانہ بنایا ۔ تین جاں بحق ہو گئے اور ایک کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا ۔ان میں دو افراد کی قبریں آج بھی مر جع خلائق ہیں۔

انہی دنوں کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاغ( کچلاک) کے تین افراد نے میری قلعہ کے قریب قابض سپاہیوں پر حملہ کر کے چند کو قتل کر دیا۔اور خود بھی جان کی بازی ہار گئے ۔ حملے اور ان افراد کی نشاندہی کچلاغ کے ایک قبائلی معتبر ملک سلطان محمد کاکڑ انگریز حکام کو پہلے ہی دے چکا تھا ۔اور ان کی لاشوں کی بھی شناخت کر دی تھی ۔غرض مذکورہ پہلے حملے کے بعد ریذیڈنسی کی تعمیر کا کام روک دیا گیا۔البتہ پولیٹیکل ایجنٹ کی رہائش گاہ مکمل ہو ئی۔ بعد ازاں اس عمارت میں چند ضروری تبدیلیاں کر کے ایک خوبصورت عمارت کی شکل دی گئی۔ چنا ں چہ اس عمارت ہی کو ریذیڈنسی میں تبدیل کر دیا گیا۔

یہ تمہید اس لئے باندھی کہ آئے روز گورنر ہاؤسز عوام کی سیر و تفریح کیلئے کھول دینے کی خبریں پڑھنے اور سننے کو مل رہی ہیں ۔چونکہ کوئٹہ کا گورنر ہاؤس انگریزوں کی بنائی ہوئی تاریخی عمارت ہے، بناوٹ کے لحاظ سے بھی منفرد ہے ۔ گورنر ہاؤس میں بھی اسکولوں کالجوں اور جامعات کے طلباء و طالبات کو سیر کیلئے لے جایا جاتا ہے ۔ سوچا کیوں نہ انگریز کی آمد کا مختصر تذکرہ بھی کیا جائے ۔کو ئٹہ کا گورنر ہاوس وسیع رقبے پر مشتمل ہے۔ انگریز وائس رائے کا مجسمہ، قدیم تصاویر، مختلف تہذیبوں کے نادر مجسمے اور اشیاء، اسی طرح کوئٹہ کے پہاڑوں کے نایاب درندے ’’مم‘‘ کا مجسمہ بھی رکھا گیا ہے۔ گویا خوبصورت عمارت ہے اور واقعی دیکھنے کی جگہ ہے۔

 امان اللہ خان یاسین زئی بلوچستان کے گورنر ہیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔ صوبے کے معروف قانون دان ہیں۔ ان کی تقرری بلا شبہ عمران خان کی حکومت کابہترین اقدام ہے۔ ۔ اچھی بات ہے کے لوگوں کو وقتا فوقتا گورنر ہاؤس دکھانے کا موقع دے دیا جاتا ہے۔ بہتر ہو گا کہ گورنر اور وزیراعلیٰ ہاوس کے درمیان والی سڑک (زرغون روڈ) بھی عوام کے لیے مستقلاً کھولی جائے۔ یہ شاہراہ گزشتہ چند برسوں سے عوامی آمد و رفت کے لیے مکمل بند ہے۔ دو طرف سے آہنی گیٹ اور اس سے پہلے خاردار تاریں اور آہنی رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ گورنر ہاؤس میں عوام کو لے جایا جاتا ،جبکہ اس کے سامنے والی شاہراہ شہریوں کے لیے قطعی بند ہے، میری نظر میں یہ سراسر تضاد ہے۔

کوئٹہ کی ایک اور شاہراہ حالی روڈ جہاں ایف سی ہیڈکوارٹر اور پاکستان ٹیلی ویژن کی عمارت ہے، چند برسوں سے شہریوں کے آنے جانے کے لیے بند ہے۔خوجک روڈ بھی سیکیورٹی کے نام پر آد ھی ر ہ گئی ہے۔شاہراہ جعفر خان جمالی بھی رات کو یک رویا کر دی جاتی ہے۔ شاہراہوں کی بندش کا مسئلہ نذیر آغا ایڈوکیٹ نے عدالت میں بھی اُٹھا رکھا ہے ۔گورنر ہاوسز بارے کہا گیاکہ یہ عمارتیں تعلیمی اداروں میں تبدیل کر دی جائیں گی ،یہ بھی سُنا کہ عجائب گھر بنائے جائیں گے ۔ معلوم نہیں کیوں عمران خان ان عمارتوں کے پیچھے پڑے ہیں۔ نہ یہ نوازشریف کی ملکیت ہیں اور نہ نوازشریف بادشاہ تھے کہ ان کی سلطنت کے پُرشکوہ محلات کو عبرت کے لیے کھولا جارہا ہے۔ ناہی عمران خان انقلاب لا چکے ہیں نہ انقلابی ر ہنما ء ہیں۔ یہ حکومتِ پاکستان یا صوبائی حکومتوں کی جائیدادیں ہیں، جن میں آئین پاکستان کے تحت حلف اٹھانے والے گورنر اپنی مدتِ گورنری میں مقیم رہتے ہیں۔ وزیر اعظم یہ بھی فرما چکے ہیں کہ یہ عمارتیں غلامی کے دور کی یاد دلاتی ہیں، یعنی انگریز کی باقیات میں سے ہیں۔ تو پھر ہونا یہ بھی چاہیے کہ ملک کے طول و عرض میں بنے ریلوے اسٹیشنوں کی عمارتیں واگزار کرائی جائیں، بنائے گئے بڑے بڑے ریلوے پل اور سرنگوں کا بھی خاتمہ کیا جائے، ملک کی قدیم چھاؤ نیاں خاص کر کوئٹہ چھاؤنی اور اسٹاف کالج بھی انگریز کا بنایا ہوا ہے ۔ بلکہ ہمارا تو گذارا ہی انگریز کی باقیات پر ہے ۔ گویاوزیراعظم کی یہ منطق بے معنی ہے۔ البتہ یہ بات ٹھیک ہے کہ احاطہ کی دیواریں ہٹا کر فینسنگ کی جائے۔جیسا کہ لاہور میں کیا جا رہا ہے ۔ تاکہ گزرنے والوں کو اندر کی عمارت دکھائی دے۔ اس سے شہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہوگا۔ کوئٹہ کے گورنر ہاؤس کی دیواریں بھی ہٹائی جائیں تو شہر بھلا لگے گا۔

کوئٹہ شہر ویسے بھی قلعے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ بدامنی کی وجہ سے تمام سرکاری عمارتیں، دیواریں تعمیر کرکے چْھپا دی گئی ہیں۔ضمناً سو دنوں کی کارکردگی کا ذکربھی ہو جائے، جس میں جام کمال کی حکومت خو اہ مخواہ کود پڑی۔ حالانکہ بلوچستان کی حکومت نے ایسا کوئی اعلان و دعویٰ سرے سے کیا ہی نہ تھا، لیکن پھر بھی سو دنوں کی کارکردگی پیش کرنا شروع کردی۔ سو دنوں کی بات سے ہٹ کر جام کمال کی حکومت نے مختلف محکموں میں تقریباً 29 ہزار آسامیاں تین ماہ کے اندر پُر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بلوچستان بینک کے قیام کی صوبائی کابینہ نے منظوری دی ہے جس کے لیے پندرہ سو آسامیاں رکھی گئی ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ بینک کے قیام سے سالانہ ڈیڑھ ارب روپے کا منافع ہوگا۔ بلوچستان کی حکومت نے گوادر اور دوسرے علاقوں میں غیر ملکی سرمایہ کار کمپنیوں کے لیے زمین کی ملکیت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یعنی زمین مالکانہ حقوق کے بجائے لیز یا کرائے پر دی جائے گی۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے جس پر فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

 

governor house

history

JAM KAMAL

Tabool ads will show in this div