حصول علم کی خاطر کمسِن طلبہ کشتیوں پر خطرناک سفر کرنے پر مجبور
آج کے دور جدید میں بھی مستقبل کے معماروں کو پرانے دور کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور علاقہ میں اسکول نہ ہونے کے باعث طلبہ علم کی پیاس بجھانے کیلئے کشتیوں پر خطرناک سفر کر کے اسکول جانے پر مجبور ہیں ۔
سابق وزیر اعظم، گورنر اور موجودہ وزیر خارجہ کے شہر ملتان میں دریا پار رہنے والے بچوں کو آج بھی اسکول جانے کے لئے کشتی کے ذریعے خطرناک سفر کرنا پڑتا ہے۔
اسکول کے استاد کے مطابق طلبہ بہت دیر سے اسکول پہنچتے ہیں، 10 بجے کے بعد آتے ہیں کیونکہ کشتی والا کبھی لیٹ ہوجاتا ہے، اِس علاقہ میں ایک سکول ہے جہاں دو سو سے زائد بچے پڑھتے ہیں ۔
دریا پار بستی سیالاں کے مکین اپنی مدد آپ کے تحت چھوٹا سا اسکول بنا کرعلم کی روشنی پھیلا رہے ہیں جہاں جانے کیلیے بچوں کو میلوں طویل پُرخطر راستوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔
دریا پار موضع بنڈہ سندیلہ، موضع ہمروٹ ، اور موضع بیہلی کے اڑھائی سو سے زائد بچے کشتی کے ذریعے خطرناک سفر کرنے پر مجبور ہیں ۔
بچوں کا بھی یہی کہنا تھا کہ ہم سکول لیٹ ہو جاتے ہیں کیوں کہ کشتی لیٹ ہوجاتی ہے۔
آٹھ سو سے زائد گھروں پر مشتمل اس علاقہ کے چھوٹے بچے اسکول بنانے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں ۔
ایک بچے نے سماء کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومت ہمیں سکول بنا دے کیوں کہ ہمارے علاقہ میں کوئی بھی اسکول نہیں ہے ۔
ستر سال گذرنے کے باوجود جان ہتھیلی پر رکھ کر تعلیم حاصل کرنے والے مستقبل کے معمار اب بھی حکومتی توجہ کے منتظر ہیں ۔