تعلیم کیلئے دہشتگردی کو شکست دینے والے خیبرڈسٹرکٹ کے بہادر بچے

خیبر ڈسٹرکٹ کے علاقوں میں دہشت گردوں کے ہاتھوں تعلیمی اداروں کی تباہی نئی بات نہیں۔قبائلی ضلعوں میں گزشتہ 8 سال کے دوران تعلیم دشمن دہشت گردوں نے بڑی تعداد میں درسگاہوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں 49 اسکول جزوی اور 309 مکمل طور پرتباہ ہوئے۔

 گورنمنٹ مڈل اسکول قدم کے ایک استاد کا کہنا ہے کہ ہمارے اسکول کو بھی دو بار دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ پہلا دھماکا اسکول کے دروازے سے ملحقہ کمرے کے سامنے کیا گیا، جس سے اسکول کو جزوی نقصان پہنچا۔

اس حملے کے تین سے چار ماہ بعد ہی دہشت گردوں نے دوبارہ اس اسکول کو بم سے نشانہ بنایا۔ اس بار بیرونی دروازے کو ہدف بنا کربارودی مواد نصب کیا گیا جس سے اسکول کا مرکزی دروازہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔

سال 2016 میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ان حملوں کے باعث 16 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم رہ گئے جس میں 5 لاکھ بچیاں بھی شامل ہیں۔ شرح خواندگی میں اضافے اور تعلیم عام کرنے کیلئے مقامی لوگوں نے مختلف پروگرامز کا آغاز کیا۔ محمد عمر آفریدی کا شمار بھی ان ہی لوگوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کیلئے جمردو کے علاقے ورمانڈو میلہ میں عارضی اسکول قائم کیا۔

محمد عمر آفریدی نے بتایا کہ ’’میں نے سال 2016 میں یہ درسگاہ قائم کی، جہاں ابتدا میں بیس سے تیس بچے پڑھنے آتے تھے،جن کی تعداد تاہم اب 180 تک جا پہنچی ہے، مگر محدود وسائل کے باعث بچے زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں‘‘۔ بیس ہزار آبادی کے اس علاقے میں بچیوں کی تعلیم کیلئے کوئی علیحدہ اسکول نہیں۔

تعلیم کی مخدوش صورت حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے محمد عمر آفریدی کا کہنا ہے کہ جب پاک افغان سرحد سے دو کلو میٹر دور مضافات میں موجود اسکولوں کا یہ حال ہے تو اندازہ لگائیں کہ خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں تعلیم کی شرح اور معیار کیا ہوگا؟۔

محمد عمر آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ بارش، گرمی اور موسم کی دیگر سنگینیوں کے باعث بچوں کو پڑھانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ شوق سے اپنے بچوں کو پڑھانا تو چاہتے ہیں مگر باقاعدہ اسکول اور سہولیات کے فقدان نے یہ عمل دشوار بنا دیا ہے۔

Khyber District

Government Middle School Qadam

destroyed schools

Tabool ads will show in this div