لُٹ پئی اے لُٹ کے لے جاؤ، بنی گالا تجاوزات کیس پر چیف جسٹس کے ریمارکس

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بنی گالا میں تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ انتظامیہ کے پاس اہلیت ہے نہ ہی قابلیت، سی ڈی اے کی موجیں لگی ہیں۔ پیسہ بنایا جا رہا ہے۔ لُٹ پئی اے لُٹ کے لے جاؤ'۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے بنی گالا تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی جانب سے رپورٹ پیش کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 1960 کے نقشے کے مطابق زون 4 میں سڑکیں ہیں جبکہ 1992 اور 2010 میں اس میں ترمیم کی گئی اور زون 4 کے کچھ علاقے میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کو بھی اجازت دی گئی لیکن اس کے باوجود ابھی کافی سارا علاقہ موجود ہے۔ جسے بچایا جاسکتا ہے۔
جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جہاں سڑکیں نہیں ہیں وہاں سڑکیں بننی ہیں، سیوریج سسٹم بھی بننا ہے، اس کے لیے زمین چاہیے ہوگی اور سی ڈی اے کے پاس نہ اہلیت ہے نہ قابلیت، پھر کیسے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ منصوبے پر عمل کرنے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے۔ صرف کاغذ پر لکھ کر لانے سے منصوبے نہیں بنتے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کو فیس دیکر پراپرٹی ریگولرائز کرانا ہوگی، چیف جسٹس
اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بنی گالا تعمیرات کی ریگولائزیشن سے حاصل فنڈز کو اس منصوبے پر لگائیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیا پاکستان بن رہا ہے تو ممکن ہے کہ آپ زیر زمین بجلی کی لائنیں بچھائیں یا ٹرینیں چلائیں لیکن اس کے لیے بھی آپ کو زمین چاہیے ہوگی جبکہ سی ڈی اے نے ابھی تک کوئی پلان جمع نہیں کرایا یا تو جرمانہ لے کر تعمیرات کو ریگولائز کردیں۔
اس دوران وکیل عائشہ حامد نے کہا کہ بنی گالا کی ریگولرائزیشن اس طرح سے نہیں ہو سکتی۔ اگرکوئی ریگولرائزیشن کی مد میں رقم نہیں دیتا تو تعمیرات گرا دیں۔
یہ بھی پڑھیں: بنی گالا تجاوزات کیس: تعمیرات کو ریگولرائز کرنے کیلئے کمیٹی قائم
وکیل بابراعوان نے کہا کہ عدالت نے 5 نکات فریم کیے تھے، تعمیرات کی ریگولرائزیشن کا معاملہ جاری ہے۔ سی ڈی اے کو درخواستیں آ رہی ہیں جن کی اسکروٹنی کا عمل جاری ہے۔ بنی گالا تعمیرات ریگولرائزیشن کی حد تک از خود نوٹس طے ہو چکا ہے۔ نالہ کورنگ پر 3 سروے کرا کر بھی حکم دیا گیا وہ معاملہ بھی طے ہو گیا۔
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ تیسرا نقطہ لیز کا تھا اور چوتھا بوٹنیکل گارڈن ہے، ستر فیصد کام ہو چکا ہے دیوار بن چکی ہے۔ تاہم آخری مسئلہ سیوریج کا ہے، جس کا پانی صاف کیا جاسکتا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد سی ڈی اے کو 10 دنوں میں مارگلہ سروے کے 34 لاکھ روپے جبکہ اسلام آباد اور پنجاب کو اپنے سروے کی رقم جمع کروانے کا حکم دے دیا۔