فوجی عدالتوں سے سزائے موت، عمر قید پانے والے 74 افراد کی سزائیں کالعدم

پشاور ہائیکورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 74 افراد کی سزائیں کالعدم قرار دیتے ہوئے سب کی رہائی کا حکم دے دیا ہے۔ رہا کیے گئے 50 افراد کو سزائے موت جبکہ 24 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
فوجی عدالتوں سے سزائیں پانے والے افراد کے لواحقین نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت پشاور ہائیکورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں جن کی سماعت چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ وقار احمد سیٹھ اور جسٹس لال جان خٹک پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی۔
ان میں سے 2 افراد کی عدالتی کارروائی کی تفصیل سماء ڈیجیٹل کو موصول ہوگئی ہیں جس کے مطابق دیر کے رہائشی زور آور خان نے اپنے چچا گل فراز کو فوجی عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی سزائے موت کے خلاف آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت پٹیشن دائر کی۔
ملزم کی جانب سے شبیر حسین ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔ وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 19 جون 2013 کو مردان میں جنازہ گاہ کے اندر خود کش دھماکا ہوا تھا جس میں رکن صوبائی اسمبلی سمیت 28 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ گل فراز پر اس خود کش حملے کی منصوبہ بندی اور سہولت کاری کا الزام ہے۔
وکیل نے بتایا کہ فوجی عدالت نے ملزم کے اعترافی بیان کی بنیاد پر اس کو سزائے موت سنائی ہے حالانکہ اعترافی بیان ملزم کو حراست میں لینے کے کئی سال بعد ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے علاوہ ملزم گل فراز کے خلاف کسی قسم کے شواہد موجود نہیں تھے۔
ایڈووکیٹ شبیر حسین نے عدالت کو بتایا کہ ہنگو سے تعلق رکھنے والے ایک اور ملزم کو بھی محض اعترافی بیان پر سزائے موت سنائی گئی ہے۔ اس کا اعترافی بیان بھی حراست میں لینے کے طویل عرصہ بعد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس اعترافی بیان کے علاوہ فوجی عدالت کے پاس ملزم کے خلاف کسی قسم کے ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھے۔
ہنگو سے تعلق رکھنے والے ملزم کے بھتیجے احسان اللہ نے اپنے چچا کو ملنے والی سزائے موت کے خلاف آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت رٹ دائر کی تھی۔ ملزم پر 2009 اور 2010 میں ہونے والے خودکش حملوں کی معاونت کرنے اور 2011 میں پولیس اہلکاروں پر حملے میں بھی سہولت کاری کا الزام تھا۔
دو رکنی بنچ نے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 74 ملزمان کی سزائیں کالعدم قرار دے کر تمام افراد کی رہائی کا حکم دیا ہے۔ کیس کا تفصیلی فیصلہ تاحال جاری نہیں کیا گیا۔