اصغرخان کیس،ایف آئی اے کوان کیمرہ بریفنگ دینےکی اجازت مل گئی
سپریم کورٹ پاکستان نے ڈائریکٹر جنرل وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو اصغر خان عملدرآمد کیس میں ان کیمرہ بریفنگ دینے کی اجازت دے دی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں اصغر خان عمل درآمد کیس کی سماعت شروع ہوئی، تو ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو ان کیمرہ بریفنگ کی درخواست کی۔ سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ کیس کے بعض حقائق عدالت کو علیحدہ سے بتانا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سب کچھ سپریم کورٹ کر چکی ہے، اب تک عدالتی حکم پر کیا عملدرآمد ہوا، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے معزز عدالت کو بتایا کہ وزارت دفاع نے اپنا جواب جمع کرایا ہے، سابق فوجیوں کے ٹرائل کیلئے عدالت قائم کردی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ سویلین افراد کے ٹرائل کا کیا بنا؟، ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ بعض حقائق ان کیمرا بتا سکتا ہوں، عدالت چاہے تو بعد میں کھلی عدالت میں بتا دیں گے، جس پر چیف جسٹس نے ایف آئی اے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کیمرہ بریفنگ کی اجازت دی۔
اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تمام حقائق قوم کے سامنے آنے چاہئیں، کوئی ادارہ قانون سے بالا نہیں ہے، عدالتی کارروائی پر عوامی اعتماد بہت ضروری ہے، جو خفیہ یا حساس معلومات ہیں انہیں سامنے لائیں، کیس میں بڑے ادارے اور افراد کا ذکر ہوا ہے۔
اس موقع پر سابق آرمی چیف راحیل شریف کو ملنے والی این او سی پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جنرل راحیل شریف کے این او سی کا کیا بنا، راحیل شریف کی این او سی کی توثیق کا کہا تھا، چیف جسٹس کے بیان پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزارت دفاع نے سمری کابینہ کو بجھوا دی ہے۔
پس منظر
سال 1990ء کی انتخابی مہم کے حوالے سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس انتخابی مہم کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) میں شامل جماعتوں اور رہنماؤں میں پیسے تقسیم کیے گئے۔ ایئر فورس کے سابق سربراہ اصغر خان مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، یہ کیس پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہے۔ خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے ایک بیان حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ سیاسی رہنماؤں میں یہ پیسے مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب سے لے کر بانٹے گئے تھے۔
اس کیس میں پیسے لینے والوں میں غلام مصطفیٰ کھر، حفیظ پیرزادہ، سرور چیمہ، معراج خالد اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا نام بھی سامنے آیا تھا۔ اصغر خان کیس میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پیسے بانٹنے کا یہ سارا عمل اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور دیگر قیادت کے بھی علم میں تھا۔ سپریم کورٹ نے 2012ء میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کیلئے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم اور 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی پر عائد کی تھی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کیخلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا، مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف عدالت عظمیٰ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت مسترد کرچکی ہے۔