سوشل میڈیا پر نایاب جانوروں کی خروید وفرخت و اسمگلنگ کیخلاف والئڈ لائف پالیسی بنالی گئی
جانوروں کی اسمگلنگ کی روک تھام اور جنگلات میں انسانی عمل دخل کے باعث پیدا ہونے والے تناؤ کو روکنے کیلئے وزارت ماحولیاتِ تبدیلی نے پاکستان کی پہلی وائلڈ لائف پالیسی بنالی ۔
وزارت ماحولیات کے مطابق سال 2015 میں قومی جنگلات کی پالیسی جاری کی گئی تھی جس میں جنگلی حیات سے متعلق تمام چیزیں شامل تھیں ، تاہم اب جنگلی حیات سے متعلق ایک جامع پالیسی کی ضرورت ہے۔
وزارت کی جانب سے خطرناک جانوروں کی غیر قانونی تجارت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے جنگلی جانور اور ان کے اعضاء کی تجارت کی جارہی ہے، نئی پالیسی میں تجویز دی گئی ہے کہ سوشل میڈیا پر جنگلی جانوروں کی خرید فروخت کی روک تھام کیلئے خصوصی سیل بنایا جائے جو نہ صرف سوشل میڈیا پر نظر رکھے بلکہ ہر لمحہ اس غیر قانونی اقدام کی تحقیقات کرے ۔
نایاب جانوروں کی خرید و فروخت کے کیلئے غیر قانونی تاجر سوشل میڈیا سائٹ فیس بک کے پیجز اور گروپس کا استعمال کرتے ہیں ۔
نایاب جانور جس میں پینگولین ، کچھوئے ، باز، تلور ، نایاب چھپلکی اور معدومی سے دوچار جانور غیر قانونی طور پر پاکستان سے باہر برآمد کیے جاتے ہیں ۔
اس مجوزہ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے بھی کہا گیا ہے کہ "غیر قانونی جنگلی حیات کے تمام قسموں کی تجارت کا خاتمہ کیاجائے، جہاں جنگلی جانوروں کو اپنے مفاد کیلئے پالتے ہیں جس میں کالا جادو، دواؤں کے استعمال ، چڑیاگھر، سرکس جبکہ ان کے پنکھ اور دیگر جسم کے حصے کو مختلف شعبوں میں اپنی اپنی ضروریات کے مطابق استعمال کرتے ہیں ۔
آبادی بڑھنے سے انسانوں اور جانوروں میں تصادم کا خطرہ
جنگلات میں ہونے والی انسانی تجاوزات سے انسانوں اور مویشیوں پر جنگلی جانوروں کے حملوں کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ اس جگہ پہلے سے ہی مقامی جانور رہائش پذیر تھے۔
نئی پالیسی میں تجویز کیا گیا ہے کہ نجی شعبوں کے ساتھ تعاون کرکے جن خطرناک علاقے میں جنگلی جانوروں کے حملے کا خدشہ ہوتا ہے وہاں انسانوں اور مویشیوں کی انشورینس اسکیموں کو متعارف کرایا جائے گا۔
شکار کے مقابلے
وزرات نے شکار کے مقابلوں کی کامیابی کا اعتراف کیا اور کہا کہ ان مقابلوں سے مقامی افراد کو فائدہ ہوتا ہے جبکہ اس تجویز میں صوبوں کو زور دیا گیا ہے کہ بیابان علاقوں کی شناخت کی جائے جہاں جنگلی جانوروں موجود ہیں۔
شکار کے مقابلوں کا فائدہ عام طور پر غیر ملکی شکاریوں کے ذریعہ ہوتا ہے کیونکہ وہ ڈالر میں معقول حد تک اچھی رقم ادا کرتے ہیں۔
نئی پالیسی میں حکومت کو غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ کام کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے تاکہ وہ ان فیلگ شپ پروگراموں کی شفافیت کو یقینی بنائیں۔
جانوروں پر ہونے والے ظلم کیخلاف قانون سازی کی جائے
جانوروں پر ظلم کے واقعات آج بھی پاکستان میں نمایاں ہیں جن میں نہ صرف جنگلی جانور جیسے بھالو اور شیروں کو قید رکھا جاتا ہے، بلکہ سامان اٹھانے والے جانور جیسے گدھے پر حد سے زیادہ وزن ڈال دیا جاتا ہے ۔
پالیسی میں نشاندہی کی گئی ہے کہ جانوروں پر ہونے والے ظلم کی روک تھام کے لئے ''ایکٹ، 1890 '' کو اپڈیٹ کیا جائے اور جانوروں کے حقوق کے لئے نئی سزائیں متعارف کرانے کی ضرورت ہے ۔
یہ بھی تجویز کیا گیا کہ ’نیشنل انیمل ویلفیئر کمیٹی ‘کی قانون سازی کیلئے دیگر وزارتوں کے ساتھ ساتھ صوبائی وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ اور جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں سے بھی مشاورت کی جائے ۔