سپريم کورٹ نے اصغرخان کیس کی سماعت کيلئے بینچ تشکیل دیدیا

سپريم کورٹ نے اصغر خان کیس کی سماعت کيلئے بینچ تشکیل دے دیا، جب کہ ایف آئی اے سے کیس میں اب تک کی پیشرفت رپورٹ بھی طلب کرلی گئی ہے۔ عدالت کی جانب سے آئندہ سماعت کیلئے نواز شریف سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے گئے۔

سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کرنے سے متعلق بننے والے اصغر خان عمل درآمد کیس کی سماعت کیلئے تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا ہے، بینچ چيف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں کیس کی سماعت کرے گا، تین رکنی بینچ میں جسٹس عمرعطا بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن بھی شامل ہیں، جو بدھ 15 اگست کو کيس کي سماعت کرے گا۔

عدالت نے سابق وزيراعظم نوازشریف، سابق آرمي چيف اسلم بيگ اوراٹارنی جنرل آف پاکستان سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے گئے ۔عدالت نے ایف آئی اے سے بھي پیشرفت رپورٹ طلب کرلي۔ اس سے قبل ہونے والی سماعت میں سابق آرمی چیف اسلم بیگ، سابق ڈی جی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی، اٹارنی جنرل اور ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو بھی نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے مئی میں کیس کو دوبارہ سماعت کیلئے مقرر کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو اصغر خان کیس سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ عدالت اصغر خان کیس میں فیصلہ دے چکی ہے، نظرثانی کی درخواستیں خارج کی جا چکی ہیں اور اب عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہونا ہے۔ بعد ازاں جون میں سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے وزارت دفاع سمیت تمام اداروں کو ایف آئی اے سے تعاون کرنے کا حکم دیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اصغر خان عمل درآمد کیس میں مزید تاخیر برادشت نہیں کریں گے، ایک منٹ ضائع کیے بغیر تفتیش مکمل کریں اور ایف آئی جس کو بلائے اس کو جانا ہوگا۔

اصغر خان کیس کا پس منظر

ملک بھر میں 1990ء میں انتخابی مہم سے متعلق الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس انتخابی مہم کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی ) میں شامل جماعتوں اور رہنماؤں میں پیسے تقسیم کیے گئے۔ جس پر پاک فضائیہ کے سابق سربراہ اصغر خان مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، یہ کیس پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہے۔

 

خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے ایک بیان حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ سیاسی رہنماؤں میں یہ پیسے مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب سے لے کر بانٹے گئے تھے۔ پیسے لینے والوں میں غلام مصطفیٰ کھر، حفیظ پیرزادہ، سرور چیمہ، معراج خالد اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا نام بھی سامنے آیا تھا۔ اصغر خان کیس میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پیسے بانٹنے کا یہ سارا عمل اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور دیگر قیادت کے بھی علم میں تھا۔

 

سپریم کورٹ نے اکتوبر 2012 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم اور 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درنی پر عائد کی تھی۔ اس مقدمے کی سماعت اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی تھی جس میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین بھی شامل تھے۔ بینچ نے کہا تھا کہ اِس مقدمے کو نمٹائے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 1990 کے عام انتخابات کے تاریخی پس منظر کو دوبارہ لکھا جائے۔ آٹھ نومبر 2012 میں سپریم کورٹ نے اپنا تفصیلی فیصلہ بھی سنا دیا جسے اُس وقت کے سپریم کورٹ کے رجسٹرار ڈاکٹر فقیر حسین نے ایک پُر ہجوم پریس کانفرنس میں بیان کیا تھا۔

 

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا۔ مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت مسترد کرچکی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم نامے کے مطابق حبیب بینک کے اُس وقت کے سربراہ یونس حبیب نے جنرل اسلم مرزا بیگ اور جنرل اسد درانی کے کہنے پر 14 کروڑ روپے قومی خزانے سے فراہم کیے جن میں سے چھ کروڑ سیاست دانوں میں تقسیم کیے گئے۔ اِس کی بھی نا مکمل تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔

ARMY CHIEF

ASLAM BAIG

ASAD DURRANI

asghar khan case

Ghulam Ishaq Khan

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div