سیاسی جماعتیں، دھاندلی کے الزامات اور الیکشن کمیشن کا کردار

تحریر: محمد اسرار

سیاسی جماعتیں الیکشن کے نتائج اور رزلٹ ٹرانسمشن سسٹم (آر ٹی ایس) کی ناکامی پر ہونے والے تنازعے پر شدید تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ آر ٹی ایس کے متعلق الیکشن کمیشن کے دعوﺅں کو میڈیا نے جھٹلا دیا ہے، میڈیا پر آرٹی ایس کے بند کئے جانے کی خبریں سیاسی جماعتوں کے موقف کی تائید کر رہی ہیں مگر اس کے باوجود سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کے تسلسل کی خاطر نتائج قبول کئے ہیں جو قابل تعریف بات ہے۔

گزشتہ روز گزری کے سرکاری اسکول سے سینکڑوں بیلٹ پیرز برآمد ہوئے جس کے بعد سیاسی جماعتوں نے ایک مرتبہ پھر الیکشن کمیشن کی جانب انگلیاں اٹھانا شروع کیں اور تشویش کا اظہار کیا۔ گزری کے اسکول سے برآمد ہونے والے بیلٹ پیپرز قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 247 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 111 کے ہیں۔ اسکول سے ملنے والے بیلٹ پیپرز کی تعداد 154 ہے جن میں سے 118 پر تیر کے نشان پر مہر لگی ہوئی ہے، کچھ پر پتنگ اور کچھ پر کتاب پر مہر لگی ہوئی ہے مگر حیران کن طور ایک بھی بیلٹ پیپر پر بلے کے نشان کی مہر نہیں۔ اس طرح بیلٹ پیپرز ملنا تشویشناک ہے، چند روز پہلے بھی قیوم آباد کے علاقے میں کچرا کنڈی سے بیلٹ پیپرز برآمد ہوئے تھے جنہیں نامعلوم افراد نے آگ لگائی تھی۔ اس صورتحال کے بعد الیکشن کمیشن کی یہ آئینی ذمے داری ہے کہ وہ تمام معاملات کا جائزہ لے کر سیاسی جماعتوں کی شکایات کا ازالہ کرے۔

الیکشن کمیشن نے کئی حلقوں کے فارم 45 امیدواروں کو مہیا نہیں کئے جن میں مالاکنڈ کا قومی اسمبلی کا وہ حلقہ بھی شامل ہے جہاں سے چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے الیکشن لڑا تھا۔ بلاول بھٹو کے ترجمان نے فارم 45 نا ملنے پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور نظام کا تسلسل چاہتے ہیں تاہم ہماری جمہوریت پسندی کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ الیکشن کمیشن کے ناک کے نیچے ہمارے ووٹ چوری ہوں اور ہم چپ کر کے بیٹھ جائیں۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزام درست ہیں یا نہیں کچھ کہا نہیں جا سکتا مگر الیکشن کمیشن کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو دور کرے۔

کچھ جماعتوں کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ غیر مناسب ہے کیونکہ مجموعی طور پر الیکشن کمیشن کا کردار قابل تعریف رہا۔ شکوک و شبہات اس وقت پیدا ہوئے جب نتائج کا اعلان تاخیر سے ہوا۔ پاکستانیوں کے لئے یہ سب نیا نہیں کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور ماضی میں بھی سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ ایک سال بعد سال 2019 میں ملک میں بلدیاتی الیکشن ہوں گے اس لئے الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات کرے کہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج متنازع نا ہوں اور سیاسی جماعتیں دھاندلی کا الزام نا لگا سکیں۔ بائیو میٹرک مشینوں کے ذریعے نا صرف الیکشن کا شفاف انعقاد ممکن ہے بلکہ انتخابی اخراجات میں پچاس سے ساتھ فیصد کمی بھی ہوگی۔ پچھلے برس لاہور کے حلقہ این اے 120 میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں بھی تجرباتی بنیادوں پر بائیو میٹرک مشینوں کا استعمال کیا گیا تھا۔ اگر پندرہ کروڑ موبائل سمز کی تصدیق کے لئے بائیو میٹرک مشینوں کا استعمال ہوسکتا ہے تو دس کروڑ ووٹرز بھی بائیو میٹرک مشینوں کے ذریعے اپنا ووٹ دے سکتے ہیں، الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر انتخابات کے بعد سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات نا لگیں اور دنیا پاکستان میں قائم جمہوریت اور انتخابی عمل پر انگلیاں نا اٹھا سکے۔

PTI

Politics

opposition parties

RTS

election results

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div