کالمز / بلاگ

بلوچستان ،انتخابات کے بعد کا سیاسی منظر نامہ

جلال نُورزئی بلوچستان میں عام انتخابات دوہزار اٹھارہ میں حق رائے دہی کا آغاز کوئٹہ میں پولنگ اسٹیشن کے باہر خود کش حملے سے ہوا۔ 31افراد جن میں پولیس اہلکار بھی شامل تھے پیوند خاک کر دئیے گئے ۔ لوگوں کی بڑی تعداد زخموں سے چور ہو گئی ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ انتخابات کے شوروغوغا میں جاں بحق افراد کے لواحقین کی دل جوئی اور زخمیوں کی عیادت تو دو ر کی بات ،کسی بڑے نے اس سانحے کو یاد تک نہیں کیا۔یہ وہ لوگ تھے جو دہشت گردی کے خطرات منڈلانے کے باوجود ووٹ کا فریضہ ادا کرنے گھروں سے نکلے تھے۔ اور پولیس اہلکار پر امن ماحول میں انتخابات کے انعقاد کا فرض ادا کرنے کے دوران خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ رب العزت ان سب کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔غرض انتخابات کا مرحلہ گزر گیا ۔ سیاسی جماعتیں اپنی اپنی ترجیحات کے تحت حکومت سازی اور حکومتوں میں جگہ بنانے کی دوڑ دھوپ میں لگی ہوئی ہیں۔بلوچستان میں پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی کی گویا اس بار شامت آئی ۔نیشنل پارٹی کا تو مکمل طور پر صفایا ہو گیا ۔البتہ پشتونخوا میپ کے حصے میں ایک نشست پھر بھی آئی بہر کیف بلوچستان عوامی پارٹی بڑی پارلیمانی جماعت کی حیثیت حاصل کر چکی ہے ۔اور اس جماعت کی حکومت کے امکانات عیاں ہیں۔
یہ” باپ“ کی خوش قسمتی ہے کہ اُن کا قائد جام کمال جیسا جہاںیدہ شخص ہے ۔جام کمال نے الیکشن کے دوران بہت بھاگ دوڑ کی ، محنت اور تھکاوٹ اُن کے چہرے پر نمایاں تھی ۔ اگرچہ اس نے اور اس کے باپ دادا نے ہمیشہ پرو اسٹیبلشمنٹ سیاست کی ہے تاہم اس منصب کے لئے واقعی اہل ہیں۔جام کمال کو نواز شریف کی حکومت کے دوران ساتھ نہیں چھوڑناچایئے تھا ۔ اسمبلیوں کی مدت پوری ہوتی تو بے شک اپنی راہ جدا کر لیتے۔آخر انسان کی اپنی رائے و مرضی بھی تو ہوتی ہے ۔نواب زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد جو حکومت بنی وہ در اصل نواز شریف کو یہ پیغام تھا کہ صوبے میں کسی کو بھی صاحب ِاقتدار بنایا جا سکتا ہے۔اس حکومت نے صوبے کو علاﺅالدین مری کا تحفہ دیا ۔ مرکز اور دوسرے صوبوں کی طرح یہ نگراں بھی جانبدار تھا۔
سر دار اختر جان مینگل اور ایم ایم اے (جے یو آئی ف)اپنی حکومت بنانے کی مساعی کر رہی ہے۔ ان کے پاس اراکین کی تعداد پندرہ ہے۔انہیں پشتونخوا میپ کے ایک رکن نصر اللہ کی حمایت حاصل ہے نواب ثناءاللہ زہری یعنی ن لیگ ، آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے ان کے بھائی نعمت زہری کی حمایت بھی حاصل ہو سکتی ہے ۔بی این پی عوامی اور اے این پی نے بڑی عجلت میں باپ کی حمایت کا اعلان کر دیا، ان کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا ۔البتہ سردار اختر مینگل حکمت ،ٹھہراﺅ اور قوی موقف کے ساتھ آگے قدم بڑھا رہے ہیں۔اختر مینگل کا بنی گالہ نہ جانے کا فیصلہ بھی آبرو مندانہ ہے ۔کہا جاتا ہے کہ پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے نہ کہ کنواں پیاسے کے پاس۔ نہ کہ ”باپ “کی طرح کہ پوری جماعت بنی گالہ پہنچ گئی اوراپنے چار اراکین قومی اسمبلی تحریک انصاف کی حمایت میں پیش کر دئیے ۔بدلے میں تحریک انصاف نے صوبے میں ان کی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا۔
سردار یار محمد رند پی ٹی آئی کے صوبائی صدر اور اب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر بھی ہیں اُن سے اس ضمن میں مشاورت ہونی چاہئے تھی ۔کیونکہ پی ٹی آئی اپنی حکومت بھی بنا سکتی تھی ۔بہر حال سیاست لے دے کا نام ہے ۔عمران خان کو اپنی وزارت عظمیٰ کےلئے اراکین قومی اسمبلی کی حمایت و تعاون بھی تو درکار ہے ۔عمران خان کو ویسے بھی ایک مضبوط حزب اختلاف کا سامنا ہے جو عددی اعتبار سے بھی حزب اقتدار کے قریب ہیں اور ملک کی تقریباً سبھی جماعتیں انتخابات کی شفافیت پر معترض ہیں۔بلوچستان میں جام کمال کو مشکلات کا سامنا ہو گا ۔کنگز پارٹی(باپ) کے اندر موقع کی تاک میںبیٹھے لوگوں کی کمی نہ ہے ۔سردار یار محمد رند بھی انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیں گے ۔دوئم حزب اختلاف بھی مضبوط حیثیت کی حامل ہے۔گویا جام کمال کو اپنے
لوگوں سے ہوشیا ر رہنے کی زیادہ ضرورت ہے ۔
شکست سے دوچار پشتونخوا میپ کے چیئر مین محمود خان اچکزئی اپنے آبائی ضلع قلعہ عبداللہ پر بھی نہ جیت سکے ۔اُدھر ان کے بھائی ڈاکٹر حامد خان اچکزئی جو سابقہ حکومت میں محکمہ ترقی و منصوبہ بندی کے وزیر تھے کے خلاف چار جولائی کو کیو ڈی اے بد عنوانی کیس میں احتساب عدالت میں ریفرنس دائر ہوا۔حامد اچکزئی بلوچستان ہائی کورٹ سے ضمانت حاصل کر چکے ہیں ۔پلاٹوں کی الاٹمنٹ میں بے قاعدگیوں کا یہ چند لاکھ روپوں کا کیس ہے ۔
حامد اچکزئی صاف دامن شخص ہیں۔سول سیکرٹریٹ کے ایک بیوروکریٹ حامد خان اچکزئی کے دور وزارت میں محکمہ پی اینڈ ڈی میں دو یا تین سال ایڈیشنل سیکرٹری تعینات تھا۔اس راست گوصاحب نے راقم کو بتا یا کہ تعیناتی کے دوران حامد اچکزئی یا ان کے کسی عزیز، قریب یا کسی ما تحت نے کبھی محکمانہ معاملات میں مداخلت نہیں کی۔نہ کسی خلاف ظابطہ و قانون کام کے لئے دباﺅ ڈالا گیا۔نیز یہ کہ ان کی تعیناتی بھی حامد خان اچکزئی کی خواہش کی بجائے محکمانہ قائدے ضابطے کے تحت ہوئی تھی ۔گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے اپنے منصب سے انصاف کیا ہے ۔ غیر سیاسی و غیر جانبدار طور پر مرکز کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ان کا مزید اس عہدے پر بر قرار رہنا صوبے کے لئے بہتر ہے ۔انتخابات کے دوران مولانا عبدالغفور حیدری نے اُن پر الزام لگایا کہ گورنر ہاﺅس پشتونخوا میپ کے انتخابی دفتر میں تبدیل ہو چکا ہے ۔مولانا عبدالغفور حیدری کی بات میں صداقت نہ تھی ۔مولانا عبدالغفور حیدری نے حقائق سے با خبر ہونے کے باوجود گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی پر الزام عائد کیا ۔ کیونکہ انہیں امید تھی کہ وہ کوئٹہ کے حلقہ پی بی 32پر کامیاب ہوں گے ۔ لہٰذا مولانا عبدالغفور حیدری کو اس الزام اور بہتان پر معذرت کر لینی چاہئے۔ آخری بات یہ کہ مجھے ایک اہم ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ ایک اہم حکومتی شخصیت کی گاڑی سے پنجاب جاتے ہوئے ڈیرہ غازی خان یا بلوچستان کے حدود میں بھاری رقم برآمد ہوئی ہے،واللہ اعلم بالصواب ۔اگر ایسا ہے تواس امر کی پردہ پوشی نہیں ہونی چاہئے ۔ ​

sucide attack

Sardar Akhtar Mengal

Election 2018

JAM KAMAL

BAP

BNP Mengal

Government formation

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div