عمران خان کی ناکامی کس کی ناکامی ہوگی؟

عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی فتح کے بعد اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں پارٹی کی طرف سے عمران خان کو باقاعدہ طور پر وزیراعظم کیلئے نامزد کردیا گیا۔ جس کے بعد امید کی جارہی ہے کہ وہ اکہترویں یوم آزادی تک وزارت عظمی کا حلف اٹھا لیں گے۔ پچیس جولائی کو ہونے والے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز دوسرے نمبر پر رہتے ہوئے قومی اسمبلی کی 64 نشستیں حاصل کرنے میں کایماب ہوئی جبکہ نواز لیگ کے سابق سربراہ کو یہ انتخابات اڈیالہ جیل میں قید بامشقت کرتے ہوئے دیکھنا پڑے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ تین بار وزیراعظم رہنے والے اور 80 کی دہائی میں اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے نواز شریف پر یہ وقت بھی آنا تھا کہ ان کی جماعت کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو کہ 1988 میں بنائی گئی جماعت اسلامی جمہوری اتحاد کے ذریعے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا تھا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ نواز شریف کو 1990 اور 1997 کے انتخابات میں بھی انہی قوتوں نے وزیراعظم بنایا تھا جنہوں نے نواز شریف کو 2013 میں تیسری بار وزیراعظم بنوایا۔ مگر اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کئی سال گزرنے کے بعد جو کچھ نواز شریف کے ساتھ ہوا۔ کیا عمران خان کے ساتھ بھی کچھ سال بعد وہی ہوگا۔ جو آج نواز شریف کے ساتھ ہورہا ہے؟۔

حیرانگی کی بات یہ بھی ہے کہ ماضی قریب میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے ہی ایسا سیاسی ماحول بن جاتا ہے کہ انتخابات سے پہلے ہی عوام انتخابی نتائج سے واقف ہوجاتے ہیں۔ کبھی آرمی ڈکٹیٹر منتخب شدہ سیاستدانوں کے ذریعے نئی جماعت بناتا ہے اور کبھی محترمہ بے نظیر کی شہادت عندیہ دیتی ہے کہ اگلی سرکار پیپلز پارٹی کی ہوگی۔ جس کی پانچ سالوں میں مایوس کُن کارکردگی اور 2013 کے انتخابات سے قبل سیاسی پرندوں کی نواز لیگ میں شمولیت اشارہ دیتی ہے کہ اگلی باری نواز لیگ کی ہوگی۔ انہی روایات، شبہات اور اشاروں کی روشنی میں 2018 کے انتخابات سے پہلے بھی سب کو پتہ تھا کہ اگلی سرکار عمران خان کی ہوگی۔ جن کے چبوترے پر سیاسی جماعتوں سے اُڑ جانے والے پرندے بسیرہ کررہے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کو ان کی خواہش کے باوجود قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت نہیں ملی جس کی وجہ سے عمران خان کے وزیراعظم بننے میں اتنی دیر لگ رہی ہے۔ ملک بھر سے آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے 14 امیدواروں اور دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے باوجود ابھی تک تحریک انصاف کے رہنما قومی اسمبلی میں واضح اکثریت ثابت کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف متحدہ اپوزیشن علامتی طور پر ہی سہی لیکن وزیراعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کیلئے اپنے امیدوار لا رہی ہے۔

موجودہ سیاسی حالات میں لگ رہا ہے کہ چاہے اپوزیشن جتنی مرضی تگڑی ہوجائے اور ماضی کے سیاسی دشمن تحریک انصاف کے خلاف جتنے مرضی جتن کرلیں۔ عمران خان کو وزیراعظم بنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لیکن اچنبے کی بات یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان مسلم لیگ ق جیسی سیاسی جماعتوں کی حمایت سے بننے والی تحریک انصاف کی حکومت کتنی مظبوط ہوگی؟۔ عمران خان کتنے مظبوط وزیراعظم ہونگے۔ جو کہ حکومتی اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کو ساتھ رکھنے کیلئے ان کی کتنی شرائط مانیں گے؟۔

سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ 1990، 1997 اور 2013 میں نواز شریف کو اقتدار میں لانے والے عمران خان کو کتنی دیر تک برداشت کریں گے اور اس سے بھی زیادہ پشیمانی کی بات یہ ہے کہ کیا عمران خان اُن معاملات پر جن میں دخل اندازی پر نواز شریف کے برے دن شروع ہوئے تھے۔ کیا عمران خان ان معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرسکیں گے اور آخر میں سب سے پریشانی کی بات یہ کہ کہیں عمران خان کا انجام بھی کہیں وہ تو نہیں ہوگا۔ جو کہ نواز شریف کا ہوا؟۔

پریشان کر دینے والے یہ تمام سوالات اپنی جگہ لیکن بحیثیت قوم ابھی ہمیں عمران خان اور ان کی حکومت کیلئے دعا گو ہونا چاہیئے۔ کیونکہ پاکستان کے پاس اب غلطی کی گنجائش نہیں اور عمران خان کی ناکامی صرف تحریک انصاف کی ناکامی نہیں ہوگی۔ بلکہ تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے 1 کروڑ 68 لاکھ ووٹرز کے علاوہ اُن کی بھی ناکامی ہوگی۔ جن کے اشاروں پر سیاسی پرندے انتخابات سے پہلے اور منتخب ہونے والے آزاد امیدوار انتخابات کے بعد تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں۔

PTI

Politics

IMRAN KHAN

election results

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div