متحدہ پی ٹی آئی غیر فطری معاہدہ
تحریر: ارشد قریشی
وفاق میں حکومت سازی کے حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین جو معاہدہ طے پا کر تحریری شکل میں سامنا آیا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس پر عمل درآمد ممکن نہیں۔ معاہدے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ معاہدہ نچلی سطح کے قائدین کے درمیان ہوا ہے اور ایم کیوایم وفاقی حکومت میں شراکت داری اور وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کرنے جارہی ہے اس کے باوجود معاہدہ طے پاتا ہے کراچی کی قیادت کے درمیان۔ اس معاہدے کے مطالعہ کے بعد کہیں سے بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کسی دو سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والا معاہدہ ہے بلکہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے ایم کیو ایم پاکستان کو تحریری طور پر یہ لکھ کر دیا ہے کہ اگر حکومت سازی میں آپ ہماری حمایت کریں تو ہم یہ کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس نو نکاتی معاہدے پر صرف یہی کہا جاسکتا ہے ’’دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘۔ یہ معاہدہ پاکستان تحریک انصاف کے لیئے ایم کیو ایم کی جانب سے ایک تحفہ ہوسکتا ہے لیکن ایم کیو ایم کے لئے اسے فیس سیونگ بھی کہنا غلط ہوگا۔ یہاں سب سے اہم بات یہ کے صوبہ سندھ میں ایم کیو ایم پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف دونوں ہی پاکستان پیپلزپارٹی کی حریف ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کا اس معاہدہ سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں اور وہ یقینی طور پر سندھ میں حکمران جماعت ہوگی۔ پاکستان پیپلز پارٹی چوں کہ اس معاہدے سے خوش نہیں ہے اس لئے وہ کسی صورت نہیں چاہے گی کہ اس معاہدے پر عمل ہوسکے۔ یوں کہنا غلط نہیں ہوگا اب پیپلز پارٹی آئندہ سال ہونے والے مقامی حکومت کے انتخابات میں اسی معاہدے پر انتخابی مہم چلائے گی۔ ایم کیو ایم پاکستان 25 جولائی کی رات سے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کر رہی ہے مگر براہ راست اس دھاندلی کا ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف کو نہیں ٹھہرا رہی حالانکہ جن نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی ہے ان نشستوں پر ایم کیو ایم اپنے وجود سے فتح حاصل کرتی رہی ہے۔ اس لیئے کسی بھی دھاندلی کا الزام براہ راست پاکستان تحریک انصاف کی طرف ہی اشارہ ہے۔
اس معاہدے کے کسی نکتے میں بھی ایم کیو ایم پاکستان کے انتخابی منشور میں بتائے گئے نکات کا ذکر نہیں۔ ایم کیو ایم نے اپنی انتخابی مہم میں انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ اور حمایت کا اعلان کیا تھا جب کہ اس معاہدے میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ معاہدے میں درج ہے کہ کراچی کی مردم شماری پر قومی اسمبلی کی قرارداد پر عمل کیا جائے گا۔ جب کہ ایم کیوایم اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کرچکی ہے۔ ظاہر ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کی ہی روشنی میں اس پر عملدرآمد ہوگا۔ ایک اور نکتے میں ذکر ہے کے پاکستان تحریک انصاف سندھ میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے ایم کیوایم کی سپریم کورٹ میں دائر درخواست کی حمایت کرے گی جب کہ پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت بلدیاتی اختیارات کے حوالے سے اس مطالبے کی پہلے ہی حمایت کرچکی ہے۔
معاہدے کے مطابق کراچی آپریشن پر تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر نظر ثانی کی جائے گی۔ ایسا بھی اسی صورت میں ممکن ہے کہ حکومت سندھ بھی ایسا چاہے۔ کراچی کے مالیاتی پیکیج کا بھی معاہدے میں ذکر ہے جب کہ یہ یقینی بات ہے کہ شہر کراچی سے اکیس ایم این اے کو ترقیاتی کاموں کے لیئے فنڈز جاری ہوں گے۔ دونوں فریقین کے درمیان یہ بھی طے پایا ہے کہ خیبر پختونخوا طرز پر پولیس اصلاحات لائی جائیں گی۔ اول تو یہ کہ پاکستان تحریک انصاف نے ہمیشہ کہا کہ ہماری حکومت آنے کے بعد پورے ملک میں پختونخوا طرز پر پولیس اصلاحات لائی جائیں گی، دوم یہ کہ ایسی اصلاحات حکومت سندھ کی منظوری کے بغیر لانا ممکن نہیں ہوگا۔ معاہدے کے آٹھویں نکتے کے مطابق ایک بین الاقوامی سطح کی یونیورسٹی حیدرآباد شہر میں قائم کی جائے گی۔ اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے گذشتہ دور میں گورنر سندھ اور ملک ریاض کے درمیان ایک یونیورسٹی حیدرآباد اور ایک نوابشاہ میں تعمیر کرنے کے منصوبے کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔
اس معاہدے کا سب سے دلچسپ نکتہ آخری یعنی نواں ہے جس میں تحریر ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین کے بیان کی روشنی میں ہر اس حلقے میں انتخابی آڈٹ کرایا جائے گا جہاں ایم کیوایم کو تحفظات ہوں گے! یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ یقیناً ایم کیو ایم کو ان حلقوں میں ہی تحفظات ہیں جہاں اسے شکست ہوئی ہے اور جہاں شکست ہوئی ہے وہاں ایم کیوایم کے امیدواران الیکشن کمیشن اور عدالتوں سے رجوع کرچکے ہیں اس صور ت حال میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کیسے کوئی حلقہ کھولنے کا الیکشن کمیشن کو کہہ سکتی ہے۔ ایم کیوایم پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف سیاسی بیانات اور ان کی اہمیت سے خوب واقف ہیں۔ عمران خان صاحب کا بیان ایک طرف لیکن حلقوں کے کھولنے کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے وکلاء ان باتوں کی شدت سے نفی کرتے ہیں اور جس کی ایک تازہ مثال لاہور کے این اے 131 کی ہے جسے خواجہ سعد رفیق کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے کھولنے کا حکم دیا اور پاکستان تحریک انصاف نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اعلان کردیا۔