بی اے پی اور پی ٹی آئی میں خفیہ معاہدے کی افواہیں

ملک بھر کی طرح بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بھی حکومت کے حوالے سے افواہوں کا بازار گرم ہے۔
بلوچستان میں بی اے پی کی جانب سے وزرات اعلیٰ کے لیے مرکزی صدر جام کمال اور اسپیکر کے لیے سابق وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو کا نام سامنے آنے کے بعد افواہوں کا بازار گرم ہے کہ بی اے پی اور پی ٹی آئی کے مابین بھی گزشتہ حکومت کے مری معاہدہ کی طرز پر معاہدہ طے پایا ہے جس کے مطابق صوبائی حکومت کے ابتدائی ڈھائی سال بی اے پی کے وزیر اعلیٰ ہوں گےاور باقی کے ڈھائی سال وزارت اعلیٰ کی سیٹ پی ٹی آئی کے حصے میں آئے گی۔
ان خبروں میں کتنی حقیقت ہے یہ جاننے کے لیے سما ڈیجیٹل نے بلوچستان عوامی پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات چوہدری شبیر سے رابطہ کیا توانھوں نے ان خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان خبروں میں کسی قسم کی صداقت نہیں،ہمارا پی ٹی آئی کے ساتھ غیر مشروط اتحاد ہے اور بی اے پی وزرات اعلیٰ پر کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ایک وژنری آدمی ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ہر وزیر اعلیٰ کا اپنا وژن ہوتا ہے جسے وہ ساتھ لے کر چلتا ہے،اس طرح کے معاہدے صرف صوبے نہیں بلکہ جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہیں،اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی کا پورا فوکس صوبے کی اور یہاں کے عوام کی خدمت پر ہے اس کے لئے ہم تمام پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلیں گے مگر یہ ساتھ چلنا ایسے معاہدوں کی بنیاد پر نہیں ہوسکتا۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کے صوبائی ترجمان بابر یوسفزئی نے سما ڈیجیٹل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ آج پی ٹی آئی بلوچستان کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس صوبائی صدر سردار یار محمد رند نے طلب کیا ہے جس میں بی اے پی کی پی ٹی آئی کے ساتھ مرکز اور صوبے میں کیا باتیں طے ہوئی ہیں اس حوالے سے سب کو اعتماد میں لیا جائے گا،فی الحال معاہدے کے حوالے سے پھیلنے والی ان افواہوں کو صرف افوہیں تصور کی جائیں۔
اب ان افواہوں میں کتنی صداقت ہے اور یہ خبریں کتنی سچی ہیں اس کے لئے کرنا ہوگا صرف ڈھائی سال کا انتظار