ہمیں’’ درختوں ‘‘کے سونامی کی ضرورت ہے

موسمیاتی تبدیلی نے دنیا بھر کو متاثر کیا ہے۔اب کینیڈا کو ہی دیکھ لیں جہاں40 ڈگری تک گرمی کی حدت نہیں جاتی لیکن اس سال گرمی اتنی شدید پڑی کہ درجہ حرارت 40فارن ہائٹ سے اوپر پہنچا چونکہ وہاں کے لوگ اتنی شدید گرمی برداشت نہیں کرسکتےاورکئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، کئی لوگ اسپتالوں میں پڑے رہے۔
موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہےلیکن کئی ممالک میں اس سے بچنے کےلئے مختلف طرح کے اقدامات کئے جارہے ہیں ، کہیں گرمی زیادہ ہورہی ہے تو گلوبل وارمنگ کے عوامل جان کرایسی گیسز کا اخراج کم کرنےکے بارے میں کہا جارہاہے،جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں آرہی ہیں،جیسا کہ دنیاکےآٹھ دولتمند ممالک جی 8 کے کچھ عرصے قبل منعقد ہونے والے اجلاس کے دوران یہ فیصلہ کیاگیا کہ گلوبل وارمنگ کا مسئلہ شدت اختیارکرتا جارہاہےاسلئے بڑھتی ہوئی صنعتوں اور کاربن آکسائڈ، مونو آکسائڈ جیسی زہریلی گیسزکے اخراج کو کم کرنے کی ضرورت ہے، ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لئے سبزہ اور ہریالی کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
دنیا کے دولت مند ترین ممالک جب یہ سوچ رہے ہیں تو ہم جو کہ ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں موجود ہیں ،ہم کیوں اس بارے میں نہیں سوچ رہے ؟ ایک وقت تھا کہ مون سون کی بارشیں ملک کو جل تھل کردیتی تھیں، اب ایک وقت یہ آگیا ہے کہ ہم بارشوں کو ہی ترس گئے ہیں ۔ کئی ماہ سے سوشل میڈیا پر پوسٹس کی جارہی ہیں ، جس میں بتایا جارہاتھا کہ کراچی میں بیرون ملک سے کونو کارپس نامی پودے منگواکر شہر بھر میں لگوائے گئے، ان درختوں کی وجہ سے زیر زمین موجود پانی بھی ختم ہورہاہے ، کیونکہ ان کی جڑیں پانی کو چوس لیتی ہیں وغیرہ۔ شہر بھر میں 5ہزار سے زائد یہ درخت لگائے گئے ہیں۔ غرض یہ کہ اس طرح کی باتیں سامنے آتی رہیں لیکن حکومت کی جانب سے اس مسئلے پرکوئی بات نہیں کی گئی۔ شاید وفاقی و صوبائی حکومتوں میں بیٹھے ہوئےلوگ ماحولیاتی مسائل کو کوئی بڑا مسئلہ ہی نہیں سمجھتے۔اس لئے اب عوام کو خود اس بارے میں کچھ سوچنے کی ضرورت ہے۔ 14اگست سر پر ہے،لوگ اپنےگھروں کو جھنڈوں اور جھنڈیوں سے سجاتے ہیں ، ہر سال لاکھوں روپے آزادی کے مہینے کے دوران سجاوٹ پرخرچ کئے جاتے ہیں۔ کیوں نا اس مرتبہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت درخت مہم کا آغاز کریں۔ اس وقت کراچی سمیت ملک کے بڑے شہروں کو درختوں کے سونامی کی ضرورت ہے،کم ہوتی ہوئی ہریالی نے جہاں شہروں کی خوبصورتی کو مانند کیاہے۔وہیں ماحولیاتی آلودگی کوبھی بڑھادیا ہے۔ درختوں کی سونامی مہم کا مطلب یہ نہیں کہ صرف اس ماہ ہی درخت لگالئے جائیں اور پھر مڑ کر اسے دیکھا بھی نہ جائے، ہر شہری اپنے گھر کے قریب موجود پارک یا فٹ پاتھ کے کناروں پر درخت لگائے اور کوشش کی جائے کہ اسے پانی بھی مستقل بنیادوں پر فراہم کی جائے، اس کے لئےہر محلے کے کچھ لوگ گروہ کی شکل میں اکھٹے ہوکر کسی نرسری والے کی مدد بھی لے سکتے ہیں ۔ ان کی مدد سے بھی درختوں کو لگایا جاسکتاہے۔ ویسے درختوں کے سونامی کی ضرورت سندھ، پنجاب اور بلوچستان کو زیادہ ہے، کیونکہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے 2015ء کے بعد سے وہاں تیزی سے نشونما پانے والے 9لاکھ سے زائد درخت لگوائے،درختوں کو لگانے کے لئے 16ہزار مزدوروں نے دن رات کام کیا۔ یہ مہم باقاعدہ طور پر صوبے میں شروع کی گئی تھی، جس کے تحت کہا گیاتھا کہ 42اضلاع میں 300ملین درخت لگائے جائیں گے۔ چلیں اگر وہاں یہ ٹارگٹ پورا نہیں بھی کیا جاسکا تب بھی اس صوبے نے گرمی کی شدت اور ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کی کوشش کی، اب یہی کوشش ملک بھر میں موجود لوگوں کو خود سے کرنی ہوگی، تاکہ ملک میں بڑھتی ہوئی آلودگی کو کم کیاجائے، اس کے علاوہ مختلف پروجیکٹس کی وجہ سے درختوں کو کاٹا جاتا ہے، اس پر بھی پابندی لگانی چاہئے، کارنوکورپس اگر واقعی نقصان دہ ہیں تو ماہرین کی مدد لے کر انہیں کٹوادیاجائے اور اس کی جگہ نیم وغیرہ کے درخت لگوائے جائیں ،ساتھ میں یہ بھی یاد رہے کہ درختوں کی سونامی مہم کی ملک کو جھنڈے اور جھنڈیوں سے زیادہ ضرورت ہے، اب فیصلہ آپ کا ہے۔