انتخابی نتائج اور موجودہ سیاسی صورتحال

تحریر: عمیر سولنگی

تمام تر قیاس آرائیوں کے باوجود پچیس جولائی کو پاکستان میں گیارہویں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جس کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت بن کر سامنے آئی ہے۔ تحریک انصاف کے علاوہ باقی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابات کے نتائج کو مسترد کیا گیا اور حالیہ انتخابات کو دھاندلی زدہ انتخابات قرار دیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان نے تجویز دی کہ منتخب ارکان حلف نا اٹھائیں اور انہوں نے دوبارہ انتخابات کا مطالبہ بھی کیا، شہباز شریف مولانا فضل الرحمان سے متفق دکھائی دیئے مگر حتمی فیصلے کے لئے پارٹی کے سینئر رہنماؤں سے مشاورت کے لئے وقت مانگا، جب تمام سیاسی جماعتیں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھیں تو ایسے میں نوجوان سیاستدان بلاول بھٹو زرداری نے تمام سینئر سیاستدانوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف پارلیمنٹ کا فلور استعمال کریں۔ بلاول بھٹو زرداری نے آل پارٹیز کانفرنس کی جانب سے حلف نہ اٹھانے کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے دیگر جماعتوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے جمہوری طریقہ اختیار کریں اور پارلیمنٹ کا فلور نہ چھوڑیں۔ بلاول بھٹو زرداری مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کو قائل کرنے میں کامیاب دکھائی دیئے اور دونوں جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کی حلف نا اٹھانے والی تجویز مسترد کردی اور یوں بلاول بھٹو زرداری نے رکن قومی اسمبلی کا حلف اٹھانے سے پہلے ہی عملی طور پر پارلیمانی سیاست کا آغاز کیا۔

اب اگر یا مگر کی گنجائش نہیں رہی کیونکہ انتخابات ہوچکے ہیں مگر اب بھی ملک میں غیر یقینی صورتحال سے سیاسی حلقوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ کچھ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ دھاندلی زدہ الیکشن سے بننے والی حکومت قبول نہیں کریں گے۔ یہ بات درست ہے کہ پچیس جولائی کو ہونے والے انتخابات تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات تھے جس کا ذکر میں اپنی پچھلی تحریروں میں بھی کرچکا ہوں مگر جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے سیاسی جماعتوں کو انتخابی نتائج کھلے دل سے تسلیم کرنے چاہیے تاکہ جمہوریت کی ٹرین پٹری سے نا اترے۔ پاکستان میں ہر انتخابات کے بعد جیتنے والا خوشی کا اظہار کرتا ہے اور ہارنے والا دھاندلی کے الزامات لگاتا ہے مگر حالیہ انتخابات ماضی کے انتخابات سے کافی مختلف تھے کیونکہ پولنگ والے دن سے قبل ہی انتخابات متنازع ہوگئے تھے۔ فرحت اللہ بابر نے انتخابات سے قبل ہی کہا تھا کہ انتخابات دھاندلی زدہ ہوچکے ہیں اور اب 25 جولائی کو ہونے والی پولنگ رسمی طور پر ہے۔

تحریک انصاف وہ جماعت ہے جو ماضی میں اس طرح کے حالات سے گزر چکی ہے اس لئے تحریک انصاف کو انتخابی نتائج پر اعتراض کرنے والی سیاسی جماعتوں پر جوابی وار کرنے کے بجائے ان کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ جمہوری عمل متاثر نا ہو۔ تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آچکی ہے مگر مرکز میں حکومت بنانے کے لئے تحریک انصاف کے پاس نمبر گیم پورے نہیں۔ ممکنہ طور پر ملک کے اگلے عمران خان وزیراعظم ہوں گے مگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی وزارت عظمی کا مشترکہ امیدوار سامنے آسکتا ہے جو ملکی سیاست کو پلٹ کر رکھ سکتا ہے، اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ اپوزیشن جماعتوں کا نامزد کردہ امیدوار ملک کا اگلا وزیراعظم منتخب ہوجائے اس لئے اب تحریک انصاف کو حکومت بنانے کے لئے ایم کیو ایم اور آزاد اراکین کے سہارے کی ضرورت ہے۔ اقتدار کی ہوس میں سیاسی جماعتوں کو ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کا فائدہ اٹھانے اور جمہوری اصولوں کو روندنے کے بجائے نوجوان سیاستدان بلاول بھٹو کی طرح اصولی سیاست کرنی ہوگی تاکہ جمہوریت کا یہ سفر یونہی جاری و ساری رہے۔

ECP

PTI

Politics

BILAWAL BHUTTO

political situation

rigging allegations

election results

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div