جولائی 1977 سے جولائی 2018 تک

جولائی پاکستانی سیاست میں بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ آج سے ٹھیک 41 برس پہلے 1977 میں پاکستانی سیاست کو ہمیشہ کے لیے بدل کے رکھ دیا گیا۔ چار دہائیاں ہونے کو آئی ہیں کہ جب پاکستان میں پہلی بار جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم کا تختہ الٹا گیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن کہ پاکستان میں کوئی جمہوری وزیر اعظم اپنی مدت پوری نا کر سکا۔ اس دوران بے نظیر بھٹو دو بار حکومت میں آئیں، دونوں بار وقت سے پہلے حکومت کو ختم کر دیا گیا۔ میا ں نواز شریف تین بار حکومت میں آئے ، تینوں بار وہ اپنی مدت مکمل نا کر سکے۔ پہلی دونوں بار حکومت ختم کر دی گئی جبکہ تیسری بار حکومت چلتی رہی لیکن نواز شریف کی وزارت اعظمی پر فل سٹاپ لگا دیا گیا۔ میاں صاحب اپنی نا اہلی کے بعد سے مسلسل کچھ سوالات پوچھ رہے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات ہرگز مشکل نہیں اگر میاں نواز شریف اپنے حصے کا سچ بولنے پر آمادہ ہو جائیں۔
میاں صاحب وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں پاکستان پر حکومت کر نے کا موقع تین بار دیا گیا ہے، آج میاں صاحب مخالفین کو لاڈلا کہتے ہیں لیکن وہ یہ بھول چکے ہیں کہ اس ملک میں سب سے زیادہ مدت کے لیے لاڈلا رہنے کا اعزاز کسی اور کے پاس نہیں بلکہ میاں صاحب کے پاس ہے۔ میاں صاحب کے چاہنے والے آج انہیں بھٹو بنانے پر تلے ہیں جبکہ وہ یہ بھول چکے ہیں کہ بھٹوایوب خان کی کابینہ سے الگ ہو کر اپنی پارٹی کی بنیاد رکھتے ہیں اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کے ساتھ الیکشن لڑتے ہیں۔ وہ نا آئی جے آئی کا حصہ بنتے ہیں نا اسحاق خان اور فاروق لغاری کے ساتھ مل کر جمہوری حکومتوں کے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور نا ہی انہوں نے ایوب خان کی قبر پر کھڑے ہو کر اس کا مشن پورا کرنے کا وعدہ کیا۔ نا کالا کوٹ پہن کر میموگیٹ میں منتخب صدر کو غدار ثابت کرنے کے لیے عدالت گئے۔
میاں نواز شریف جو سوالات پوچھ رہے ہیں وہ بہت اہم ہیں اور ان میں سے کوئی سوال بھی ایسا نہیں جس کا جواب میاں صاحب خود نا دے سکیں۔ کاش میاں صاحب بتا سکیں کہ وہ کن عوامل پر آئی جے آئی کا حصہ بنے؟ اصغر خان کیس میں ان کے پاس عدالت میں پیش ہو کر ان رازوں سے پردہ اٹھانے کا پورا موقع تھا جو انہوں نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر ضائع کر دیا۔
غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری کے ساتھ مل کر دونوں بار جمہوری حکومت کے خلاف سازش کرنے کے پیچھے کیا مجبوری تھی؟ اس کا جواب یقینی طور پر میاں صاحب ہی دے سکتے ہیں۔
گیلانی حکومت میں آصف زرداری کو غدار قرار دلوانے کے لیے مقدمہ کس کے کہنے پر دائر کیا؟
اگر میاں صاحب اپنے حصے کے جوابات دے دیں تو یقینی طور پر بہت ساری باتیں واضح ہو کر سامنے آسکتی ہیں۔ خود کو معصوم ثابت کر کے باقی سب پر الزام دھرنا ریحام خان کی کتاب سے کچھ زیادہ مختلف حرکت نہیں ہے۔
نواز شریف کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں پر قوم سے کھل کر معافی مانگیں اور ان تمام سازشوں سے پاکستانی عوام کو آگاہ کریں۔ اگر وہ محض الزام برائے الزام کی سیاست ہی کرنا چاہتے ہیں اور اپنے علاوہ سب کو سازشی اور لاڈلا سمجھتے ہیں تو یہ ان کے نظریاتی ہونے سے زیادہ ’نظرآتی‘ ہونے کا ثبوت ہے۔ جس کا صرف ایک اصول ہے اور وہ ہے اقتدار، جب تک اقتدار میں رہیں تب تک سب اچھا جیسے ہی حکومت گئی گویا قیامت ٹوٹنے لگی۔
ہم میں سے کوئی بھی اپنی غلطیوں کو تسلیم کیے بغیر اور ان کی معافی مانگے بغیر تبدیل ہونے کا دعویدار نہیں ہو سکتا۔ اس ملک کا مستقبل اسی صورت بہتر ہو سکتا ہے اگرہمارے تمام سیاست دان اور ادارے اپنی ماضی کی غلطیوں پر نادم ہوں اور وہ غلطیاں دوبارہ نا دہرانے کا اعادہ کریں ورنہ تاریخ اپنی غلطیاں دہرانے والوں کو حرف غلط کی طرح مٹا دیتی ہے۔