کالمز / بلاگ

اب کی بار تبدیلی سرکار

حالات و واقعات اور ملکی سیاسی صورتحال کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس مرتبہ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوگی۔ کرکٹ کے میدان سے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے والے عمران خان کے سیاسی کیریئر پر نظر ڈالی جائے تو انہوں نے 1996 میں اپنی جماعت کی بنیاد رکھی۔ سن 1997 کے عام انتخابات میں ان کی کارکردگی صفر رہی اور وہ کوئی بھی نشست جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ سن 2002 میں تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی ایک نشست پر فتح حاصل ہوئی، جس پر عمران خان پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ عمران خان نے نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے والے جنرل پرویز مشرف کی حمایت کی اور سن 2002 کے ریفرنڈم میں بھی عمران خان نے پرویز مشرف کی حمایت کی۔ پرویز مشرف نے انہیں وزارت عظمی کی پیشکش بھی کی مگر ریفرنڈم کے بعد عمران کے خیالات بدل چکے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ عمران خان قومی اسمبلی کی نشست سے بھی مستعفی ہو گئے تھے۔

سن 2007 میں ملک میں نافذ کی گئی ایمرجنسی کے خلاف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سخت موقف اختیار کیا، جس پر انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ عمران خان نے یہ کہتے ہوئے سن 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا کہ وہ منصفانہ نہیں ہوں گے۔ جس کے بعد وہ اور ان کی جماعت سیاسی طور پر دیوار سے لگ گئی۔ سن 2011 اکتوبر کے مہینے میں عمران خان اور ان کی جماعت ایک نئے انداز میں لاہور میں منعقد کردہ ایک جلسے میں سامنے آئی، جس میں لاکھوں لوگوں کا مجمع تھا۔ سیاسی کھیل کا رخ پلٹنے والے اس حیران کن جلسے نے مخالفین کو حیران کر دیا۔ اس وقت عمران خان کو پاکستان کا مقبول ترین سیاسی لیڈر کہا جا سکتا ہے۔

تحریک انصاف میں بڑے بڑے سیاسی ناموں کی شمولیت کے باوجود پارٹی میں عمران خان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ شاہ محمود قریشی، فردوس عاشق اعوان، ندیم افضل چن سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے اہم ترین رہنماؤں کی شمولیت کے باوجود آج بھی پی ٹی آئی صرف اور صرف عمران خان کی ذات کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے۔ اپنے پورے سیاسی کیریئر کے دوران عمران خان نے مختلف مسائل کا سامنا کیا اور مختلف مسائل کے حوالے سے ٹھوس موقف اختیار کیا۔ عمران خان نے ڈرون حملوں، فاٹا میں فوجی آپریشن، غیر ملکی امداد اور کرپشن کی سخت مخالفت کی۔ وہ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے اور ٹیکس نظام میں اصلاحات کے حامی ہیں۔ ایک طرف عمران خان کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف آج بھی ان کے سیاسی مخالفین انہیں سیاسی نابالغ اور طالبان خان جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان کے مخالفین کیا کہتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ نواز شریف کے خلاف مسلسل جدوجہد اور ان کی نااہلی کے بعد سے عمران خان کے سیاسی قد کاٹھ اور مقام میں نہایت نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو ایک ایسے سنجیدہ فریق کے طور پر دیکھا جارہا ہے جو دو مضبوط سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لئے سخت خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔

عوام پچیس جولائی کو اپنا فیصلہ سنائی گی لیکن یہ بات میں اپنے تجربے کی بنیاد پر یقین سے کہہ سکتا ہوں ہے کہ اگر تحریک انصاف اکثریتی جماعت بن کر سامنے نا آسکی تو بھی تحریک انصاف ہی اتحادیوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائے گی اور انتخابات کے بعد تحریک انصاف کا پیپلز پارٹی سے اتحاد متوقع ہے اس لئے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اب کی بار تبدیلی سرکار۔

PTI

KPK

SAMAA Blog

Pakistan Tehreek Insaaf

Election 2018

Tabool ads will show in this div