عام انتخابات،سیاستدان اور عوامی ردعمل

پچیس جولائی دو ہزار اٹھارہ کو پاکستان کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ یہ الیکشن تاریخی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ الیکشن دو منتخب جمہوری حکومتوں کی آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد منعقد کیا جا رہا ہے، ماضی میں کوئی بھی جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت مکمل نہیں کرسکی تھی، کسی نا کسی الزام کی بناء پر جمہوری حکومتوں کا خاتمہ ہو جاتا تھا۔ جمہوریت کے دس سال مکمل ہونے کے بعد جہاں ملک میں جمہوریت مضبوط ہوئی ہے وہیں عوام میں بھی سیاسی شعور پیدا ہو گیا ہے۔ قومیت، لسانیت یا جماعتی وابستگی کی بنیاد پر ووٹ دینے والی یہ قوم اب سابق اراکین اسمبلی سے انکی کارکردگی کے بارے میں سوالات پوچھ رہی ہے جو خوش آئند ہے۔ عوام میں سیاسی شعور پیدا ہونے اور سوشل میڈیا کی طاقت نے ہر ووٹر کو مضبوط اور ہر امیدوار کو خوفزدہ کردیا ہے۔ سید خورشید شاہ، مراد علی شاہ، نواب وسان، امداد پتافی، نادر اکمل لغاری، عارف علوی، خرم شیر زمان سمیت بہت سے سابق اراکین اسمبلی کی ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں جس میں عوام انکی کارکردگی کے بارے میں سوالات پوچھ رہے ہیں اور انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ عمر کوٹ میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جب پیپلز پارٹی کے امیدوار اور سابق صوبائی وزیر سید سردار شاہ کارنر میٹنگ سے خطاب کر رہے تھے تو وہاں پر موجود لوگوں نے سابق صوبائی وزیر کے خلاف نعرے بازی کی، کچھ لوگوں نے سوالات کئے کہ آپ نے پانچ سالوں میں حلقے کی عوام کو کیا دیا ہے جس کی بنیاد پر آپ ووٹ مانگنے آئے ہیں تو سردار شاہ ووٹروں کے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے کارنر میٹنگ چھوڑ کر روانہ ہوگئے۔

جن سیاستدانوں کو عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے منتخب کیا 'کیا یہ انکی ذمہ داری نہیں کہ وہ اپنی پانچ سالہ کارکردگی اپنے ووٹرز کے سامنے رکھیں؟'  ایک سیاستدان عوام سے ووٹ لے کر پانچ سال تک عوامی نمائندے کی حیثیت سے اسمبلی کا رکن رہتا ہے، وزارتوں کے مزے لیتا ہے، مراعات حاصل کرتا ہے مگر ووٹ دینے والوں کو بھول جاتا ہے اور جب پانچ سال بعد دوبارہ الیکشن کا وقت آتا ہے تو اسے پھر عوام کی یاد آجاتی ہے اور انکی تکلیفوں کا احساس ہونے لگتا ہے لیکن اگر عوام پانچ سال کی کارکردگی کے بارے میں سوال کرلے تو یہ کہہ کر جان چھڑا دیتا ہے کہ سوال کرنے والے انکے مخالفین ہیں۔ سب سے زیادہ پیپلز پارٹی کے نمائندوں کو عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما جس حلقے میں جا رہے ہیں انہیں احتجاج، نعرے بازی اور سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے خلاف بھی پہلے لیاری میں عوام نے احتجاج کیا اور پھر انکی کراچی تا خیبر نکالی جانے والی روڈ ریلی کو ہر شہر میں لیاری جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ سانگھڑ، بدین، ٹنڈو محمد خان اور سندھ کے جن جن شہروں سے بلاول بھٹو کی ریلی کا ذکر ہوا عوام نے پیپلز پارٹی کے خلاف شدید نعرے بازی کی جس کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔

ہر الیکشن سے پہلے سیاستدان عوام سے وعدے کرتے ہیں اور پھر وعدوں کی تکمیل تو دور پانچ سال تک عوام ان کے دیدار کو بھی ترستے رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنے حلقوں میں عوامی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیاستدانوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اور اگر وہ منتخب ہو کر عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں کریں گے تو انہیں آئندہ الیکشن میں نا صرف عوامی مخالفت بلکہ الیکشن والے دن شکست کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔

ECP

LYARI

Election2018

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div