میں زینب ہوں

بھول گئےشاید آپ مجھے۔میں قصور والی زینب جو بے قصور ماری گئی۔
گۓ دنوں میں مجھ پہ نوحے لکھے جاتےرہے ہیں۔میرا ماں باپ کا درد بانٹا بھی گیا اور کھنگالا بھی جا تا رہا ۔ ابھی کل ہی تو میرے نام نہاد قاتل کو سزا ہوئی ہے.تین بار سزائےموت،عمر قید،سات سال قید، چار لاکھ روپے جرمانہ ـ مگرتسلی کیوں نہیں ہوتی میرے ماں باپ کے دل کو سکون کیوں نہیں ملا۔ سب کہتے ہیں کہ قاتل کوئی ہے یہ بھی کہ پس آئینہ کوئی اور ہےاور یہ بھی سنا ہے کہ قاتل بہت بااثر ہیں۔ان پہ ہاتھ ڈالنا مشکل ہےاور یہ بھی سنا ہے کہ حکمران وقت انہیں پکڑنے سے گریزاں ہیں کہ ظالم کی رسی دراز بھی ہے اور نظروں سے اوجھل بھی۔
یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگوں کا حافظہ کمزور پڑ جاتا ہے۔مجھے یہ ڈر ہے کہ حاکم وقت انتظار کر رہے ہیں کہ میرا معاملہ بھی وقت کی گرد تلے دب جاۓ۔لوگ بھول جائیں گے زینب نام کی کسی معصوم کلی کو پاؤں تلے روند دیا گیا تھااورمیرے ماں باپ بھی اسے میشت ایزدی سمجھ کے خاموش ہوجائیں۔
میں نے سنا کہ جب نام نہاد پریس کانفرنس کروا کے میرے قاتل کے نام پہ اور مجھے ملنے والی اذیت کے انعام پہ تالیاں بجائی گیئں تو میرے باپ کی بے چارگی دیکھنے لائق تھی اور جب وہاں معتبر اور بااثر لوگ جو چہرے بشروں سے انسانی روپ میں چھپے درندے نظر آتے ہیں ہنستے کھیلتے تالیاں پیٹتے درندے۔"
یہ بھی ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ بیٹی کو رحمت نہیں زحمت سمجھا جاتا ہے۔بیٹی پیدا ہوتی ہے تو صف ماتم بچھ جاتی ہے۔کیوں پیدا ہو گئی ایک بوجھ سی بن کے زندگی گزارنا اس کے لیے معمول کی بات ہے۔
اس کی اچھی تربیت اس کی حفاظت کرنا ماں باپ کا فرض ہے۔مگر اب گھر میں سونا ہو تو اس کی حفاظت کے لیے لاکھ جتن ہو سکتے ہیں مگر بیٹی ایک پرایا دھن ہوتی ہے اس لیے خود رو پودے کی طرح بڑھتی ہے۔اسکول جائےگی وین والا کیسے لے کرجائےگا کوئی مسئلہ نہیں سب بچے جاتے ہیں۔ٹیوشن پڑھا رہے ہیں اور کیا کریں سپارہ پڑھنے بھیجتے ہیں۔بھائی کے ساتھ جاتی ہے۔بھائی کتنا بڑا ہے حفاظت کا فرض ادا کر سکتا ہے یا نہیں۔کوئی بات نہیں ان معمولی باتوں پہ سوچنے کی ضرورت نہیں
۔اگر خود حفاظت کرنا مشکل تھا تو مجھے بتاتی تو سہی ماں کہ یہ معاشرہ درندوں کا ہے ہر کسی کو اپنا نہیں سمجھ لیتے۔کسی اجنبی پہ بھروسا نہیں کر لیتے،اتنا بھروسا کہ اسے دیکھ کے اس کے ساتھ چل پڑی کہ شاید بچھڑی ہوئی ماں سے ملانا ہے۔مگر ماں سے ملنا کہاں ممکن تھا۔وہاں تو ایک اذیت ناک موت میری تاک میں تھی۔کچرے کا ڈھیر میرا منتظر تھا۔کہ پھول مرجھا جائیں تو وہیں ملتے ہیں۔میرے ابا کالج میں پڑھاتے ہیں مجھے سیکھاتے تو سہی کہ
پیاری بیٹی
گھر سے باہر مت
نکلا کر
یہ مردوں کا معاشرہ ہے
اور تو عورت ہے
او ھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میم سے پہلے پیش لگانا بھول گیا
یہ مُردوں کا معاشرہ ہے
مُردوں کی نگری کو تو قبرستان کہتے ہیں
اور قبرستان میں عورت کے جانے پہ پابندی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے بتاتے تو سہی پھر مجھے ،آپ کو، میری ماں کو اس طرح تکلیف نہ ہوتی۔
اب آپ کی اذیت کا تما شا سب دیکھ رہے ہیں۔آپکو انصاف کیسے ملے گا،کہتے ہیں کہ انصاف بہت مہنگا ہو گیا ہے۔اب عدالت میں مجھ سے لوگوں کی رسائی نہیں تو کیا میں خدا کی عدالت کی طرف دیکھوں یہاں تو سب جگہ اندھیروں کا راج ہے۔ثبوت کہاں سے آئیں گےشاید جسٹس ثاقب نثار انصاف کے تقاضے نبھا سکیں شاید چیف آف آرمی اسٹاف میرے ابا کی داد رسی کر سکیں۔مجھے اور میرے جیسی ننھی کلیوں ، اپنے ماں باپ کی شہزادیوں کو کچل کر اربوں روپے کمانے والے مافیا کو بے نقاب کر سکیں۔
اللہ تو ہر چیز کا حساب رکھتا ہے اور مقرر وقت پہ حشر بھی بپا کرے گا پھر کوئی سائٹ ڈارک نہیں ہو گی سب عیاں ہو گا۔ روز محشر میں اپنے اللہ سے انصاف لوں گی۔وہاں میرے قاتل کی کوئی پشت پناہی نہیں کرے گا۔وہاں میرے ابا کا مائیک بھی بند نہیں ہو گا وہ اللہ سے ساری باتیں کریں گےاور میرا رب جو شہ رگ سے بھی قریب ہے۔وہ ضرور سنے گا۔