سپریم کورٹ میں اصغرخان عمل درآمد کیس کی سماعت 12 جون تک ملتوی

سپریم کورٹ آف پاکستان میں سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کے الزامات سے متعلق اصغرخان عمل درآمد کیس کی سماعت 12 جون تک ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس کی سماعت ہوئی جس میں اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے ،چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب نوازشریف کہاں ہیں۔

 سماعت کے دوران چيف جسٹس نے ريمارکس ديے کہ نوازشریف خود نہیں آسکتے تو نمائندہ بھیج دیں، ہر تاریخ کا نواز شریف کو الگ جواب دینا ہوگا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوازشریف سے رابطہ ہوا ہے، نوازشریف اس وقت احتساب عدالت میں ہیں، نوازشریف اپنی نمائندگی کے لیے وکیل کا بندوبست کررہے ہیں۔

 

عدالت نے کہا کہ نوازشریف کو ہرصورت شامل تفتیش ہونا پڑے گا، جاوید ہاشمی آسکتے ہیں تو نوازشریف کیوں نہیں؟ سویلین افراد کو ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونا ہوگا۔

عدالت نے وکیل کرنے کیلئے نواز شریف کی مہلت کی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت 12 جون تک ملتوي کردي ، اصغرخان کیس میں خورشید شاہ کو جاری نوٹس واپس لے لیا گیا، کیس کی آئندہ سماعت لاہور رجسٹری میں ہوگی۔

رجسٹرار آفس نے سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ، سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی سمیت سیاستدانوں کو بھی نوٹس جاری کئے تھے۔

جن سیاست دانوں کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں ان میں سابق وزیراعظم نواز شریف ، جاوید ہاشمی، عابدہ حسین، جام معشوق، آفاق احمد، خورشید شاہ ، غلام مصطفیٰ کھر کے علاوہ سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے وغیرہ شامل ہیں۔

تحقیقاتی کمیٹی:

واضح رہے کہ اس سے قبل ایف آئی اے کی جانب سے اصغر خان کیس کی تحقیقات کیلئے3 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ ٹیم کے نئے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل احسان صادق کو مقرر کیا گیا، جب کہ گریڈ 20کے ڈائریکٹر ایف آئی اے ڈاکٹر عثمان انور اور گریڈ 19کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان کمیٹی کے ارکان میں شامل ہیں۔ ڈائریکٹر لا ء ایف آئی اے کمیٹی کی قانونی معاونت بھی کریں گے۔

کمیٹی کو مینڈیٹ دیا گیا ہے کہ وہ اصغر خان کیس میں پیسے لینے والے سیاستدانوں سے پوچھ گچھ کرے اور اس کی رپورٹ سپریم کورٹ میں بھی پیش کریں گے۔

سال 2012:

اس سے قبل سال 2012 میں سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق کیس کا فیصلہ سنایا گیا تھا، فیصلہ ایک سو اکتالیس صفحات پر مشتمل تھا، جسے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے تحریر کیا تھا۔ اور اس وقت کے عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا۔ فیصلے میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ حامد سعید کی ڈائری بھی شامل تھی، جس میں پیسے لینے والوں کا ذکر ہے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں بلکہ سرحدوں کی حفاظت ہے۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت ریاست کا سربراہ ہوتا ہے، صدر حلف سے وفا نہ کرے تو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے۔ صدر کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی ایک گروپ کی حمایت کرے۔ تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ایوان صدرمیں کوئی سیل ہے توفوری بند کیا جائے، اس وقت کے صدر، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کیا، سال 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی، انتخابات مقررہ وقت پر اور بلاخوف و خطر ہونے چاہئیں، تفصیلی فیصلے کے مطابق اسلم بیگ اور ڈائریکٹڑ جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی) اسد درانی غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک ہوئے۔ ان کا یہ عمل انفرادی فعل تھا، اداروں کا نہیں۔

اس کیس کے مرکزی درخواست گزار سربراہ، سابق ایئرچیف مرحوم اصغر خان تھے۔

فیصلے کی اہمیت:

اصغر خان نے سپریم کورٹ کو محض درخواست دی جو بعدازاں پٹیشن میں تبدیل کر دی گئی اور اب سابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کی نظرثانی درخواست زیرالتواء ہے۔ یہ کیس اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کرگیا جب آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے حلف نامے میں آرمی چیف کے حکم پر انتخابات کے لئے اپوزیشن سیاست دانوں اور بعض صحافیوں کے درمیان 9 کروڑ روپے تقسیم کرنے کا اعتراف کیا۔

بیگم عابدہ حسین شاید وہ واحد سیاست دان ہیں جنہوں نے پیسے لینے کا اعتراف اور نوازشریف و دیگر نے انکار کیا لیکن جنرل درانی آج بھی اپنے مؤقف اور حلف نامے پر قائم ہیں۔ جب پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ سے بے نظیر بھٹو کے اس کیس سے رجوع نہ کرنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ شاید بے نظیر بھٹو کو اسٹیبلشمنٹ پر اعتبار نہیں تھا۔

general elections

ASLAM BAIG

asghar khan case

Secret Funds

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div