دو جاسوسوں کی ايک کہانی
روايت ہے، 2 دشمن جاسوس ايک دوسرے کے بارے ميں جاننے کيلئے جان داؤ پر لگاديتے ہيں مگر پاکستان اور ہندوستان کے خفيہ اداروں کے سابق سربراہان نے يہ روايت توڑ دی، اسد درانی اور امرجيت سنگھ دلت نے ہندوستان صحافہ آدتيہ سنہا کے اشتراک سے کئی موضوعات پر اپنے تجربات و مشاہدات اور خيالات کا تبادلہ کرليا، نہيں بہت سادہ اور آسان اسلوب ميں ترتيب دے ديا گيا۔
تہلکہ خيز کتاب ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ کے موضوعات پيشہ ورانہ دائرے سے سياسی و واقعاتی دائرے تک پھيلے ہيں گو کہ دونوں نے بہت محتاط اور رمزيہ زبان کا استعمال کيا ہے مگر کہيں کہيں دائرے سے باہر ہوجاتے ہيں، بہر صورت يہ ايک بالکل انوکھا کام ہے، جس نے برصغير سميت دنيا بھر کے انٹيلی جنس طبقے ميں دلچسپی پيدا کردی ہے اور سياست و بين الاقوامی تعلقات کی نوعيت پر نئے زاويے سے نگاہ ڈالی ہے۔
دی اسپائی کرونیکلز، را آئی ایس آئی اینڈ دی الوژن آف پیس۔ کا تجزياتی انداز فکشن سے زيادہ متاثرکن ہے، يہ استنبول، کٹھمنڈو اور بينکاک ميں پاکستان اور ہندوستان کے درميان مذاکراتی سيشن کے دوسرے مراحل ميں ہونے والی گفتگو کا وہ مجموعہ ہے جس میں مختلف موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے، مثلاً مسئلہ کشمير پر گفتگو کا پورا مضمون اور ذيلی موضوعات، کتاب کا آغاز ايک ايسے واقعے سے کيا گيا ہے، جو اسد درانی اور اے ايس دلت کو قريب لے آيا تھا، برادرہڈ ٹو دی ریسکیو کے عنوان تلے اسد درانی نے بتايا کہ مئی 2015ء ميں ان کا بيٹا عثمان درانی بھارت ميں دوران ملازمت مشکل ميں پڑگيا تھا، جسے ہندوستانی ہم منصب اے ايس دلت نے مصائب سے نکالا تھا۔ آدتيہ سنہا، اے ايس دلت، اور اسد درانی تينوں نے الگ الگ پيش لفظ لکھے ہيں، اپنا اپنا مختصر تعارف پيش کيا ہے اور کتاب کے پراجيکٹ کيلئے محرکات پر گفتگو کی ہے۔
کتاب کا مرکزی خيال يہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان ميں باہم امن و دوستی کا امکان روشن ہونا چاہئے مگر دونوں جانب کے زاويہ نگاہ کا فرق کافی حد تک قائم رہا ہے۔ اے ايس دلت کا بيانيہ کہتا ہے کہ ہندوستان سے اچھے تعلقات ميں نواز شريف کا کردار پسنديدہ رہا ہے جبکہ اسد درانی واقعات کی بنياد پر اس خيال کو ناقابل قبول قرار ديتے ہيں، باب 19 بی بی، میاں صاحب اور عباسی میں پاکستان کی سياست پر کافی دلچسپ تبصرے سامنے آئے ہيں۔ اے ايس دلت نے بے نظير اور پيپلز پارٹی کی تعريفيں کيں جبکہ اسد درانی نے بتايا کہ ذوالفقار علی بھٹو سانحہ مشرقی پاکستان کے آرکيٹيکٹ سمجھے جاتے ہيں، بھٹو نے یحيیٰ اور مجيب الرحمان کی جانب سے مفاہمت کی ہر کوشش ناکام بنائيی۔
اسد درانی کہتے ہيں پيپلز پارٹی نے عوام کيلئے کچھ نہيں کيا، يہ گفتگو وزيراعظم شاہد خاقان عباسی کے بارے ميں چونکا دينے والے تاثرات سامنے لاتی ہے، خيال ظاہر کيا گيا ہے کہ جو پنجاب سے انتخابات ميں کامياب ہوتا ہے، وہی اگلا وزيراعظم بنائے گا، اس لئے ممکنہ طور پر ن ليگ کے شاہد خاقان ہی اگلے وزيراعظم ہوں گے، اس لئے فی الحال وہ ووٹ حاصل کرنے کيلئے نواز شريف کے بيانيے پر ساتھ نبھارہے ہيں، مگر مستقبل مختلف ہوجائے گا، آئندہ کا منظر نامہ شريف خاندان سے عاری ہوگا۔
حافظ سعید اور 11/26 کے باب ميں گفتگو جاندار ہے، اے ايس دلت نے ہندوستان کا گھسا پٹا مؤقف دہرايا، جسے اسد درانی نے بڑی خوبصورتی سے نا صرف مسترد کرديا بلکہ ممبئی حملے ميں کسی تيسری پارٹی کے ملوث ہونے کا امکان واضح کيا۔
دی ڈیل فار اسامہ بن لادن کا باب کافی حساس ہے، تاہم حقائق دبيز پردوں ميں ہی نظرآتے ہيں، يہ کتاب اکھنڈ بھارت کے انتہاء پسند نظريے کا جائزہ ليکر تمام شد ہوتی ہے۔
ہر پاکستانی اور ہر ہندوستانی کيلئے اس کتاب کا مطالعہ ازحد مفيد ہوسکتا ہے، صحافيوں کيلئے يہ بہت کچھ جاننے کا اچھا موقع ہے۔ مگر چند سوال اس کتاب کے ساتھ ساتھ سامنے چلے آئے ہيں، عموماً اس قسم کی کتاب مطالعہ کی ميز تک بلا معاوضہ اتنی جلدی نہيں پہنچتی، مگر اسپائی کرونيکلز چند گھنٹوں ميں فری آن لائن دستياب ہوگئی، کتاب کو پاکستان ميں ہر خاص و عام تک پہنچانے کی اتنی جلدی کيوں تھی؟، يہ کتاب بھارت کی جانب سے نا صرف نواز شريف کے بيانيے کو سپورٹ کرتی ہے بلکہ نواز شريف بھی اس کتاب سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں نظر آتے ہيں، کيا يہ محض اتفاق ہے؟، پاکستان ميں انتخابات سے پہلے اس کتاب کا منظرعام پر آنا اور سياست پر اثر انداز ہونا کيا محض اتفاق ہے؟۔