فاٹا بل پر عمل، قومی سلامتی کا اہم اجلاس آج ہو رہا ہے
قومی سلامتی کمیٹی کا ایک ماہ میں تیسرا اجلاس آج وزیراعظم کی زیرصدارت ہو رہا ہے۔ اجلاس میں ملک کی داخلی سلامتی اور سرحدوں کی صورت حال پر غور کیا جائے گا، جب کہ فاٹا اصلاحات بل کی منظوری کے بعد عمل درآمد سے متعلق امور بھی زیرغور آئیں گے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں ملکی سلامتی اور سرحدی سیکورٹی صورت حال کے جائزے کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی متنازع کتاب کا معاملہ بھی زیر غور آنے کا امکان ہے۔
آج ہونے والے اجلاس میں کمیٹی کے اراکین، وزراء، تین مسلح افواج کے سربراہان، انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان اور مشیر قومی سلامتی لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ ن اور دیگر حکام شرکت کریں گے۔
فاٹا بل اور صدر مملکت:
اس سے قبل پیر کے روز صدر مملکت ممنون حسین نے فاٹا سے متعلق عبوری انتظامی آرڈر پر دستخط کیے،جس پر متعلقہ علاقے کے عوام صدر کے ممنون ہیں۔ بل پر صدر کے دستخط کے بعد خیبرپختونخوا سے متصل ان علاقوں کا انتظام عبوری مدت کے دوران انتظامی آرڈر کے تحت چلایا جائے گا۔ فاٹا عبوری گورننس ریگولیشن 2018 ان قوانین کا مجموعہ ہے جن کے تحت خیبر پختونخوا میں انضمام مکمل ہونے تک فاٹا کا انتظام چلایا جائے گا۔
س انتظامی آرڈر پرتمام اپوزیشن جماعتوں نے اتفاق کیا تھا، جب کہ اس کے نفاذ سے برسوں پرانے کالے قانون فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) سے فاٹا کے عوام کو رہائی بھی مل گئی ہے۔
واضح رہے کہ 24 مئی کو قومی اسمبلی میں فاٹا کے خیبر پختونخوا سے انضمام کا 31 ویں آئینی ترمیمی بل منظور کیا گیا تھا اور اگلے ہی روز سینیٹ نے بھی اس کی منظوری دے دی تھی۔ جب کہ27 مئی کو یہ بل توثیق کے لیے خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا اور اسے دوتہائی اکثریت سے منظور کرلیا گیا تھا۔ صدر مملکت کے دستخط سے فاٹا خیبر پختونخوا میں ضم ہوجائے گا اور آئین کے آرٹیکل 247 کا خاتمہ ہوجائے گا، جس کے تحت وفاق کو فاٹا اور پاٹا تک ایگزیکٹو اتھارٹی حاصل ہے۔
صدر نے فاٹا کے عبوری انتظامی آرڈر پر دستخط کردیئے
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے دائریکٹر جنرل ( ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری اپنے بیان میں کہا تھا کہ سابق آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کو ان کی کتاب پر وضاحت دینے کیلئے جنرل ہیڈکواٹرز ( جی ایچ کیو) طلب کیا گیا ہے۔

پاک فوج نے لیفیٹننٹ جنرل ( ر) اسد درانی کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ بھی کیا ہے، جب کہ حکم نامہ موصول ہونے پر وزارت داخلہ کی جانب سے ان کا نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سلامتی کونسل کا اجلاس ون پوائنٹ ایجنڈے پر مشتمل تھا،گزشتہ کمیٹی اجلاس میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور ورکنگ باؤنڈر پر ہونے والی بھارتی مہم جوئی اور اشتعال انگیزی پر منہ توڑ جواب دینے کے عزم کا اعادہ کیا گیا تھا، جب کہ اس سے پہلے ہونے والے سلامتی کونسل کمیٹی کے اجلاس میں نا اہل وزیراعظم نواز شریف کے ممبئی حملوں سے متعلق متنازعہ بیان اور ڈان لیکس ٹو کا جائزہ لیا گیا تھا، اجلاس کے بعد اعلیٰ عسکری اور سیاسی قیادت کے مشترکا طور پر جاری اعلامیے میں نا اہل وزیراعظم کا ممبئی حملوں سے متعلق بیان مسترد کرتے ہوئے اسے گمراہ کن قرار دیا گیا تھا۔ اجلاس میں ممبئی حملوں سے متعلق انگریزی اخبار ڈان میں شائع بیان کا تفصیلی جائزہ لیا گیا تھا۔ اجلاس دو گھنٹے سے زیادہ وقت تک جاری رہا۔
اعلیٰ عسکری،سیاسی قیادت،نوازشریف کابیان مستردکرتےہوئےگمراہ کن قرار
ڈان لیکس 2 کا پس منظر
واضح رہے کہ پاکستان میڈیا گروپ ڈان نیوز کو انٹرویو میں نا اہل وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ کیا غیر ریاستی عناصر کو یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ ممبئی جا کر 150 افراد کو قتل کریں، جس کے بعد بھارتی میڈیا کی جانب سے پاکستان اور عسکری اداروں پر الزامات کا سلسلہ شروع کردیا۔

گمراہ کن بیان کیا؟
نا اہل وزیراعظم نواز شریف نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ کیا غیر ریاستی عناصر کو یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ ممبئی جا کر 150 افراد کو قتل کریں۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عسکری تنظیمیں نان اسٹیٹ ایکٹرز ہیں اور ممبئی حملوں کے لیے پاکستان سے غیر ریاستی عناصر گئے۔ نواز شریف کا کہنا تھا کیا یہ اجازت دینی چاہیے کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز ممبئی جا کر 150 افراد کو ہلاک کردیں، بتایا جائے ہم ممبئی حملہ کیس کا ٹرائل مکمل کیوں نہیں کرسکے۔
صحافی سیرل المیڈا کا مؤقف سامنے آگیا
اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج
نا اہل وزیراعظم نواز شریف کے گمراہ کن بیان پر ملک کی بڑی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے شدید احتجاج کرتے ہوئے مذمت کی گئی ہے۔ عمران خان اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس بیان کو غداری سے منسوب کرتے ہوئے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔
نوازشریف پھر متنازعہ بن گئے
NSC meeting suggested to Prime Minister to discuss recent misleading media statement regarding Bombay incident. Being held tomorrow morning.
— Maj Gen Asif Ghafoor (@OfficialDGISPR) 13 May 2018
سابق پارٹی چیئرمین کا دفاع کرتے ہوئے ن لیگ کے صدر شہباز شریف کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا انٹرویو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے، کیا نوازشریف اس طرح کی بات کرسکتا ہے؟۔ دوسری جانب چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ ممبئی حملہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے میں بھارت کی دلچسپی ہی نہیں ہے۔
نوازشریف
نواز شریف 2013ء سے جولائی 2017ء تک تقریباً ساڑھے تین سال وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں اس حوالے سے کوئی بات نہیں، سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما معاملے پر انہیں عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد ان کی جانب سے اداروں کیخلاف مسلسل بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔