اسد درانی کیخلاف تحقیقات اور نام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ

پاک فوج نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کیخلاف تحقیقات کا فیصلہ کرلیا جبکہ ان کا نام بھی ای سی ایل میں ڈالا جائے گا، سابق آئی ایس آئی چیف سے بھارتی ہم منصب کے ساتھ کتاب لکھنے کے معاملے پر 4 گھنٹے تک جی ایچ کیو میں پوچھ گچھ کی گئی۔

انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ اسد درانی کو بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سربراہ کے ساتھ کتاب لکھنے کے معاملے پر وضاحت کیلئے جی ایچ کیو طلب کیا گیا تھا، پاک فوج نے کچھ مضامین پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق سابق سربراہ آئی ایس آئی اسد درانی آج جنرل ہیڈ کوارٹر پہنچے جہاں ان سے کتاب کے معاملے پر 4 گھنٹے طویل پوچھ گچھ کی گئی، ابتدائی تحقیقات کے بعد لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کی کورٹ آف انکوائری کا فیصلہ کیا گیا، لیفٹیننٹ جنرل رینک کے افسر کی سربراہی میں تحقیقات کی جائے گی۔

مزید جانیے : پاک فوج کا اسد درانی کی کتاب پر تحفظات کا اظہار، وضاحت طلب

آئی ایس پی آر کا مزید کہنا ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے تک اسد درانی ملک سے باہر نہیں جاسکتے، اس کیلئے متعلقہ حکام کو سابق آئی ایس آئی چیف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا بھی کہہ دیا گیا ہے۔

ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ

مئی 22 میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ٹویٹر پیغام میں بتایا تھا کہ سابق آئی ایس آئی چیف کو بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل کر کتاب لکھنے کے معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرنے کیلئے جی ایچ کیو طلب کرنے کی تصدیق کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران پر ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، اسد درانی کے خیالات کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔

صحافیوں کے مطابق پاک فوج سمجھتی ہے کہ سابق آئی ایس آئی چیف کی کتاب دنیا بھر میں ملٹری کا امیج خراب اور عالمی سطح پر دشمن کے نظریات کو تقویت دے گی۔

اسد درانی کی کتاب ’’اسپائی کرونیکل‘‘ میں حافظ سعید کے ممبئی حملوں میں ملوث ہونے اور ایبٹ آباد آپریشن سمیت دیگر حساس معاملات پر گفتگو کی گئی ہے، کتاب میں آئی ایس آئی اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے آپریشنز کا بھی ذکر ہے۔

کتاب پاکستان اور بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کے درمیان مکالمے کے انداز میں لکھی گئی ہے، جس انداز سے قومی سلامتی معاملات اور کچھ ناپسندیدہ افراد پر گفتگو کی گئی، وہ ریاستی رازوں عام کرنے کے مترادف ہے۔

کچھ فوجی افسران اور عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ فوج سابق آئی ایس آئی سربراہ کیخلاف کسی بھی طرح کا کوئی ایکشن نہیں لے سکتی۔

پاک فوج کے سینئر افسر بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کا کہنا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی اب فوجی نہیں ایک عام شہری ہیں، ان پر ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا۔ البتہ انہوں نے کہا کہ سابق آئی ایس آئی چیف پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ لاگو ہوسکتا ہے جس کا اطلاق تمام فوجی حکام اور شہریوں پر ہوتا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ فوج وضاحت کیلئے کسی بھی افسر کو طلب کرسکتی ہے، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ درانی کے کیس میں کچھ ہوگا، کوئی بھی آئی ایس آئی کا سابق افسر قومی راز افشا کرے گا۔

عسکری امور کی ماہر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے سماء ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کے خیالات سے اتفاق کیا، کہتی ہیں کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی پر لاگو نہیں ہوتا، انہوں نے پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ یہ ان کے خیالات ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسد درانی نے جو باتیں لکھیں وہ اپنے تجزیوں میں وہ پہلے بھی کہتے رہے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کہتے ہیں کہ جنرل درانی نے اپنی کتاب میں جو لکھا وہ پاک فوج کے بیانیے سے مطابقت نہیں رکھتا، ایک فوجی ہمیشہ اپنے حلف کا پابند رہتا ہے۔

سابق فوجی افسر کا کہنا ہے کہ اسد درانی کو چاہئے تھا کہ کتاب چھپنے سے پہلے کاپی کلیئرنس کیلئے اپنے ادارے کو بھجوانی چاہئے تھی، اگر وہ پاک فوج کو مطئمن کرنے میں ناکام ہوئے تو ان کیخلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔

امجد شعیب نے مزید کہا کہ اگر حکومت کو ایسا لگا کہ اسد درانی نے اپنے حلف کی پاسداری نہیں کی تو ان کی پنشن بھی روکی جاسکتی ہے، وہ ریٹائرمنٹ کے 25 سال بعد بھی کوئی بھی قومی راز افشا نہیں کرسکتے۔

معروف قانون دان بابر ستار نے لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی کی کتاب سے متعلق معاملے پر امجد شعیب کے خیالات سے اتفاق کیا، بولے کہ سابق آئی ایس آئی سربراہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے گھیرے میں آسکتے ہیں تاہم اس کیلئے پاک فوج کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ کوئی راز افشا ہوا ہے۔

ECL

ASAD DURRANI

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div