اعلیٰ عسکری،سیاسی قیادت،نوازشریف کابیان مستردکرتےہوئےگمراہ کن قرار
قومی سلامتی کمیٹی نے نا اہل وزیراعظم کا ممبئی حملوں سے متعلق بیان مسترد کردیا، سیاسی اور عسکری قیادت کے اجلاس میں اخبار میں شائع ہونے والا بیان گمراہ کن قرار دیا گیا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔ اعلامیہ ون پوائنٹ ایجنڈے پر مشتمل ہے۔ اعلامیہ میں نا اہل وزیراعظم نواز شریف کے ممبئی حملوں سے متعلق گمراہ کن بیان کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے اسے مشترکا طور پر مسترد کیا گیا ہے۔ آج ہونے والے اجلاس میں شرکاء کو ممبئی حملوں کے بعد پاکستان کے تحقیقاتی اقدامات اور تعاون پر بریفنگ دی۔ اجلاس میں ممبئی حملوں سے متعلق ایک اخباری بیان کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
NSC meeting suggested to Prime Minister to discuss recent misleading media statement regarding Bombay incident. Being held tomorrow morning.
— Maj Gen Asif Ghafoor (@OfficialDGISPR) 13 May 2018
اجلاس کے بعد کمیٹی نے متفقہ فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کے بیان کو مکمک طور پر غلط اور مس لیڈنگ قرار دیا گیا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ افسوس اور بدقسمتی ہے کہ حقائق کو غلط بیان کیا گیا۔ کمیٹی شرکاء نے الزامات کو سختی سے رد کیا۔شرکاء کا کہنا تھا کہ غلط تصوارات کی بنیاد پر اور حقائق سے ہٹ کر رائے قائم کرنا بدقسمتی ہے۔

اعلامیہ میں نا اہل وزیراعظم نواز شریف کے ممبئی حملوں سے متعلق گمراہ کن بیان کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے اسے مشترکا طور پر مسترد کیا گیا ہے، پاکستان ، ابھی بھی بھارت سے کلبھشن اور سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ پر تعاون کا منتظر ہے، ممبئی حملہ کیس میں تاخیر کا ذمہ داری پاکستان نہیں بھارت ہے۔
جاری کردہ اعلامیہ میں ممبئی حٕلوں سے متعلق بیان حقائق کے منافی قرار دیا گیا ہے، اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے دوران بھارت نے اجمل قصاب تک رسائی دینے سے انکار کیا۔ اجمل قصاب کی غیر معمولی طور پر جلد بازی میں پھانسی کیس کے منطقی انجام میں رکاؤٹ بنی، پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صبح ہونے والا یہ اجلاس دو گھنٹے سے زیادہ وقت تک جاری رہا۔عسکری ترجمان کے مطابق وزیرِاعظم کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کی تجویز دی گئی تھی، جسے وزیراعظم نے قبول کرلی تھی۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے کی، جس میں دفاع، خارجہ، خزانہ، داخلہ اور اطلاعات کے وزرا، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ اور مشیر قومی سلامتی لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ نے شرکت کی۔
پس منظر
واضح رہے کہ پاکستان میڈیا گروپ ڈان نیوز کو انٹرویو میں نا اہل وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ کیا غیر ریاستی عناصر کو یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ ممبئی جا کر 150 افراد کو قتل کریں، جس کے بعد بھارتی میڈیا کی جانب سے پاکستان اور عسکری اداروں پر الزامات کا سلسلہ شروع کردیا۔
گمراہ کن بیان کیا؟
نا اہل وزیراعظم نواز شریف نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ کیا غیر ریاستی عناصر کو یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ ممبئی جا کر 150 افراد کو قتل کریں۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عسکری تنظیمیں نان اسٹیٹ ایکٹرز ہیں اور ممبئی حملوں کے لیے پاکستان سے غیر ریاستی عناصر گئے۔ نواز شریف کا کہنا تھا کیا یہ اجازت دینی چاہیے کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز ممبئی جا کر 150 افراد کو ہلاک کردیں، بتایا جائے ہم ممبئی حملہ کیس کا ٹرائل مکمل کیوں نہیں کرسکے۔
اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج
نا اہل وزیراعظم نواز شریف کے گمراہ کن بیان پر ملک کی بڑی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے شدید احتجاج کرتے ہوئے مذمت کی گئی ہے۔ عمران خان اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس بیان کو غداری سے منسوب کرتے ہوئے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔
نوازشریف پھر متنازعہ بن گئے
سابق پارٹی چیئرمین کا دفاع کرتے ہوئے ن لیگ کے صدر شہباز شریف کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا انٹرویو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے، کیا نوازشریف اس طرح کی بات کرسکتا ہے؟۔ دوسری جانب چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ ممبئی حملہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے میں بھارت کی دلچسپی ہی نہیں ہے۔
نوازشریف
نواز شریف 2013ء سے جولائی 2017ء تک تقریباً ساڑھے تین سال وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں اس حوالے سے کوئی بات نہیں، سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما معاملے پر انہیں عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد ان کی جانب سے اداروں کیخلاف مسلسل بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔