مذاق مذاق میں
تحریر: عمران احمد راجپوت
گھر ہو دفتر ہو بازار ہو گلی محلے کا چوراہا ہو یا پھر خوشی کی کوئی محفل سجی ہو جہاں چار لوگ ایک جگہ جمع ہوئے ہنسی مذاق کا ایسا دفتر کھل جاتا ہے کہ ہر طرف قہقوں کی گونج سنائی دینے لگتی ہے، کہیں کوئی کسی پر طنز کے نشتر چلارہا ہوتا ہے تو کہیں کوئی کسی پر ہُٹنگ کَستا نظر آتا ہے. ہنسی مذاق کا یہ سلسلہ جہاں ایک جانب محفل میں بیٹھے لوگوں کیلئے تفریح کا باعث بنتا ہے تو کہیں آپس میں رنجشوں کا سبب بنتا بھی دکھائی دیتا ہے، ہر شخص کا مذاق کرنے کا اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے اور وہ شخص اپنے اُسی مخصوص انداز سے لوگوں کے درمیان تفریح طبع کا سامان مہیا کرتا ہے۔
ہمارے یہاں مذاق کو صرف تفریح طبع کیلئے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اِس سے وہ وہ کام لیے جاتے ہیں کہ پوچھیں مت، اِس طریقے کو لوگ بچاؤ بند کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں، کسی کو کچھ بھی کہہ دو کسی کے ساتھ کچھ بھی معاملہ کردو لیکن جب پھنسنے لگو تو مذاق کی آڑ لیکر پتلی گلی سے صاف نکل جاؤ، مذاق کسی بھی انسان کیلئے ایک ایسا طرزعمل ہے جس کے ذریعے وہ بیک وقت ایک سے زیادہ مقاصد حاصل کرسکتا ہے، جیسے اکثر اوقات آپ نے دیکھا ہوگا لوگ مذاق مذاق میں اپنے دل کی خوب بھڑاس نکال رہے ہوتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ مصنوعی قہقہوں کے ذریعے اُسے رفو بھی کر رہے ہوتے ہیں، سامنے والے کو بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کب پھٹا کب سلا۔ اِسی طرح اکثر لوگ مذاق مذاق میں وہ بات بھی کہہ جاتے ہیں جسے وہ سنجیدہ گفتگو میں کہنے سے ہچکچاتے ہیں جبکہ سامنے والا سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ آخر اِس نے کہہ کیا دیا۔
آج کل ہر طرف خواتین کو جنسی ہراساں کئے جانے کے معاملے پر کافی بحث و مباحثے ہورہے ہیں، دیکھا جائے تو یہاں بھی کافی حد تک مذاق ہی کارفرما ہے، اسکول ہو کالج ہو یونیورسٹی ہو اسپتال ہو یا کوئی دفتر، مردوں کی جانب سے خواتین کو جنسی ہراساں کئے جانے کی شروعات مذاق کے سہارے ہی ہوتی ہے، مذاق مذاق میں مرد اپنے ساتھ کام کرنے والی خاتون سے دورانِ گفتگو ذو معنی الفاظ کا سہارہ لیکر ہیلو ہیلو ٹیسٹنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے، اگر اِس دوران سامنے سے گرین سگنل مل گیا تو سمجھو مِشن اِز سکسیس فُل ورنہ مذاق کا کیا برا منانا۔
بس یوں سمجھیں مذاق ایک ایسے خاموش ہتھیار کا نام ہے، جسے اپنے مقصد کیلئے کہیں بھی کسی بھی وقت چلایا جاسکتا ہے اور اپنے ہدف کو باآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے، ہنسی مذاق کا یہ کھیل اب تو انتہائی سنجیدہ حلقوں سمیت قومی اداروں میں بھی کھل کر کھیلا جانے لگا ہے، پچھلے دنوں وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل نے مذاق مذاق میں پی آئی اے کے ساتھ اسٹیل ملز فری دینے کا عندیہ دیا تھا، اِسی طرح ایک مقدس ادارے کی انتہائی اہم شخصیت نے مذاق مذاق میں میاں شہباز شریف کو مستقبل میں وزیراعظم دیکھنے کی خواہش کا اظہار کر ڈالا تھا، اب آپ خود اندازہ کرلیں بطور پاکستانی قوم ہم کس قدر مذاقیے ہوگئے ہیں، کوئی کام سنجیدہ کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں اور ویسے بھی جب مذاق مذاق میں سارے کام ہوجائیں تو ضرورت بھی کیا ہے سنجیدہ ہونے کی۔
اِس لیے دوستوں میری یہ مذاق مذاق میں لکھی گئی تحریر پڑھ کر آپ کو بالکل بھی سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں، جب حاکم سنجیدہ نہیں، مقدس ادارے سنجیدہ نہیں، قوم سنجیدہ نہیں تو آپ کو اور ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے سنجیدہ ہونے کی، بحیثیت قوم دیکھیں تو ہم خود 70 سالوں سے اپنی نسلوں کے ساتھ مذاق کرتے آرہے ہیں دیکھا جائے تو سب سے بڑے مذاقیے ہم خود ہیں کسی کو کیا نام دھریں۔