میں مری ضرور جاوں گا

بھوربن سے مظفرآباد جاتے ہوئے گاڑی کو دو لڑکوں نے اوور ٹیک کیا، کچھ آگے پہنچے تو مقامی ٹرانسپورٹرز نے گاڑی روک لی۔وہ وہ باتیں کہ الامان الحفیظ۔۔ مجھے بہت تکلیف محسوس ہوئی کیوں کہ میرے ساتھ لاہور کی ایک فیملی تھی ، میں نے انہیں پہاڑی لوگوں کی مہمان نواز ی کی داستانیں سنا رکھیں تھیں۔۔ کیوں کہ مجھے پاکستان کے ساحل، صحرا، جھیلیں، نخلستان اور پہاڑ دیکھنے کا باربار موقع ملا ہے۔ مجھے آج تک شانگلہ کی وہ چھوٹی سے بچی یاد ہے ، جس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں ہمیں گھر آنے کی دعوت دی، اس معصوم بچی نے بکری کے دودھ کی چائے پلائی، ماں سے پراٹھے بنوا کر کھلائے۔۔ اور جب ہم نے اسے پیسے دینے کی کوشش کی تو اس بچی نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ آپ کسان ہو (پشتو میں کسان مہمان کو بولتےہیں) ام آپ سے پیسے نہیں لیتا۔۔ والد غصہ کرے گا۔ مجھے کمراٹ ویلی کی سیر بھی یاد ہے،، جہاں ہم ایک ریسٹورنٹ میں قیام پذیر تھے ، خود ہی کھانا بناتے تھے۔۔ قریبی گاوں سے ایک شخص آیا۔۔

ہم دس لوگوں کو اپنے ساتھ لے گیا۔۔ بکرا ذبح کیا اور سب کو کھلایا۔۔ اس شخص کی گھریلو حالت سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں بمشکل ہی ایک وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہوگا۔مجھے کشمیر یوں کی مہمان نوازی کے قصے بھی اچھی طرح یاد تھے۔۔ خیر مقامی زبان میں مری کے ٹرانسپورٹرز سے گفتگو کی ۔۔ تو جان خلاصی ہوئی۔سوشل میڈیا پر بائیکاٹ مری مہم تیزی سے جاری ہے۔ مانا کہ وہاں مہنگائی بہت ہے، یہ بھی سچ ہے کہ وہاں سیاحوں کے ساتھ انتہائی برا سلوک ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چند لوگوں کے رویے انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ لیکن اس کا علاج بائیکاٹ نہیں ۔۔ محبتوں کا فروغ ہے۔ ایک بار اپنے رویوں پر غور کریں۔۔ مری کے مال روڈ پر جو ہلا گلا کرتے ہیں،، اس سے ان لوگوں کی نجی زندگی کتنی متاثر ہوتی ہے،، یہ کبھی ہم نے نہیں سوچا۔ اپنی مستیوں میں کبھی بھی وہاں کے لوگوں کا خیال ہم نے نہیں کیا۔ چھٹیوں میں مری میں رش ہوتا ہے،، ہم نے ہی انہیں زیادہ ریٹس کا خواب دکھا کر لالچی اور خود غرض بنا دیا ہے۔ آپ کو معلوم ہی ہوگا ،،روٹی کی فکر انسانیت کے تقاضے بھلادیتی ہے۔۔ مقامی ٹرانسپورٹرز کی کمائی کا ذریعہ ہی سیاحت ہے۔۔ جب آپ انہیں نظر انداز کردیں گے تو ردعمل یقینی ہوگا۔اسی ردعمل کا اثرات لڑائی جھگڑوں کی وجہ بنتے ہیں۔

مری کا بائیکاٹ نہ کریں۔۔ اسے خوبصورت بنائیں۔۔ ملکہ کہسار کو گندگی کا ڈھیر بنانے کی بجائے گلستان بنائیں۔۔ اس کے حسن کو ہنگاموں اور شور شرابے کی نظر کرنے کی بجائے قدرتی ماحول میں رہنے دیں۔ ہاں مری کے کچھ لوگوں سے میری بات ہوئی ہے۔ وہ سیاحوں کے استقبال میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، شدید سردی میں جب ہوٹلوں میں جگہ نہیں ملتی تو اسی شہر کے باسی آپ کے لئے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیتے ہیں۔

یاد رکھیں پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں سیاحت کو فروغ حاصل ہوا،، سوات، کمراٹ، آزاد کشمیر اور گلگت سیاحوں کی دسترس میں آئے ہیں، سیاحوں کا رخ اس جانب بھی ہے،، لیکن وہاں پہنچنے کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ عام آدمی کا وہاں پہنچنا مشکل ہے۔ مری کے باسیوں سے بھی گزارش ہے کہ سیاح ہی آپ کی معیشت کے ضامن ہیں،، انہیں گلے لگائیں ۔۔ محبتوں کا پرچار کریں۔ نفرتوں کے بیوپاریوں کو مسترد کریں ۔ اس دیس کو امن و آشتی کا گہوارہ بنائیں۔۔ رہی میری بات تو میں مری جاوں گا ۔ ضرور جاوں گا ، کیوں کہ وہاں پیار ہے، سکون ہے، محبت ہے، مہمان نوازی ہے۔

MURREE

INDUSTRY

JOURNALIST

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div