اصغر خان کیس،سابق آرمی چیف کی استدعا مسترد
سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں نظرثانی درخواستوں پر عدم تیاری کے باعث سماعت ملتوی کرنے کی سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کی استدعا مسترد کردی ہے، چیف جسٹس ثاقب نثار کہتے ہیں التواء نہیں دیں گے، مقدمہ آج ہی سنا جائے گا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اصغر خان کیس سے متعلق متفرق درخواستوں پر سماعت کا آغاز کیا تو سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ نے مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں گزشتہ روز کیس کی سنوائی کی اطلاع ملی، جس کے باعث مختصر عرصے میں وہ کیس کی تیاری نہیں کر سکے، اس لئے عدالت سے التماس ہے کہ سماعت ملتوی کردی جائے۔
جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ التواء نہیں دیں گے، مقدمہ آج ہی سنا جائے گا۔
انہوں نے مرزا اسلم بیگ سے مکالمے کے دوران کہا کہ کیا آپ دلائل خود دیں گے، التواء کی درخواست کو پذیرائی نہیں دے رہے، البتہ تیاری کے لئیے تھوڑا وقت دے رہے ہیں، ایئرمارشل (ر) اصغر خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اس کیس کا ایک خلاصہ دینا ہے، کیس کو عدالتی وقفے کے بعد سنیں گے۔ عدالت نے اصغر خان کیس میں نظرثانی درخواستوں پر سماعت آج دن ڈھائی بجے تک ملتوی کردی۔
اس سے قبل سال 2012 میں سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق کیس کا فیصلہ سنایا گیا تھا، فیصلہ ایک سو اکتالیس صفحات پر مشتمل تھا، جسے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے تحریر کیا تھا۔ اور اس وقت کے عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا۔ فیصلے میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ حامد سعید کی ڈائری بھی شامل تھی، جس میں پیسے لینے والوں کا ذکر ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں بلکہ سرحدوں کی حفاظت ہے۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت ریاست کا سربراہ ہوتا ہے، صدر حلف سے وفا نہ کرے تو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے۔ صدر کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی ایک گروپ کی حمایت کرے۔
تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ایوان صدرمیں کوئی سیل ہے توفوری بند کیا جائے، اس وقت کے صدر، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کیا، سال 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی، انتخابات مقررہ وقت پر اور بلاخوف و خطر ہونے چاہئیں، تفصیلی فیصلے کے مطابق اسلم بیگ اور ڈائریکٹڑ جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی) اسد درانی غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک ہوئے۔ ان کا یہ عمل انفرادی فعل تھا، اداروں کا نہیں۔
اس کیس کے مرکزی درخواست گزار سربراہ، سابق ایئرچیف مرحوم اصغر خان تھے۔
فیصلے کی اہمیت اصغر خان نے سپریم کورٹ کو محض درخواست دی جو بعدازاں پٹیشن میں تبدیل کر دی گئی اور اب سابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کی نظرثانی درخواست زیرالتواء ہے۔ یہ کیس اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کرگیا جب آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے حلف نامے میں آرمی چیف کے حکم پر انتخابات کے لئے اپوزیشن سیاست دانوں اور بعض صحافیوں کے درمیان 9 کروڑ روپے تقسیم کرنے کا اعتراف کیا۔
بیگم عابدہ حسین شاید وہ واحد سیاست دان ہیں جنہوں نے پیسے لینے کا اعتراف اور نوازشریف و دیگر نے انکار کیا لیکن جنرل درانی آج بھی اپنے مؤقف اور حلف نامے پر قائم ہیں۔ جب پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ سے بے نظیر بھٹو کے اس کیس سے رجوع نہ کرنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ شاید بے نظیر بھٹو کو اسٹیبلشمنٹ پر اعتبار نہیں تھا۔