مزدور دشمن بجٹ

تحریر: عدیل طیب
ہر سال کی طرح اس سال بھی وفاقی حکومت کی جانب سے بجٹ پیش کردیا گیا ہے جس کا حجم 59 کھرب 32 ارب روپے سے زائد ہے۔ بجٹ میں حکومت نے ترقیاتی کاموں کے لیے 20 کھرب 43 ارب روپے، دفاع کے لئے 1100.3 ارب روپے، ریلوے کی ترقی کے لئے 40 ارب روپے، بنیادی صحت کے لیے 37 ارب روپے اور تعلیم کے لئے 97 ارب 42 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور تمام پنشنرز کے لیے 10 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے جبکہ پنشن کی کم سے کم حد 10ہزار روپے کردی گئی ہے۔ بجٹ میں دیگر شعبہ جات اور منصوبوں کےلئے بھی رقم مختص کی گئی ہے لیکن روزانہ اجرت یا پندرہ ہزار تک ماہانہ کمانے والے مزدور طبقے کے لئے اس بجٹ میں کچھ نہیں رکھا گیا۔ مزدور تاحال وہی پندرہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لینے پر مجبور ہوگا جبکہ اضافہ کا کوئی امکان نہیں۔
اب ہم مزدور طبقے کی زندگی کی طرف دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ روزانہ کی اجرت یا ماہانہ پندرہ ہزار روپے تنخواہ وصول کرنے والا اپنے گھر کا بجٹ کیسے بناتا ہوگا۔مزدور طبقے میں کوئی شخص روزانہ کی اجرت پر کام کر رہا ہوتا ہے تو کوئی مہینے بعد پندرہ ہزار روپے گھر لے کر جاتا ہے۔ ملک کے بیشتر شہروں میں ہمیں روزانہ صبح کے وقت کئی ایسے افراد سڑکوں پر بیٹھے نظر آئیں گے جو کوئی کام ملنے کے انتظار میں ہوں گے۔ کراچی شہر کے بیشتر علاقوں میں ہم یسے مزدوروں کو سڑکوں پر بیٹھے دیکھ سکتے ہیں جو روزانہ کام ملنے کی آس لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ کوئی شخص کام کروانے کے لئے آ جائے تو مزدوروں کا ہجوم اس کو گھیر لیتا ہے اور پھر کسی خوش قسمت کو یہ کام مل جاتا ہے لیکن اکثریت صرف منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ یہ ایک مزدور ایک دن میں کتنے پیسے حاصل کر لیتا ہوگا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

اب ایک ایسے مزدور کی طرف آتے ہیں جو ماہانہ پندرہ ہزار روپے گھر لے جاتا ہے۔ یہ مزدور اپنی بیوی اور ایک بچے کے ساتھ شہر کے کسی دوردراز علاقے میں رہتا ہے۔فرض کرلیں یہ مزدور ایک کمرے کا کرایہ تین ہزار تک ادا کرتا ہو جبکہ اس کے ساتھ ساتھ بجلی،پانی اور گیس کے بلز ادا کرتا ہو۔پھر مہینہ گزارنے کے لئے گھر کا سودا لاتا ہو اور بچے کے لئے ضرورت کی چیزیں بھی لاتا ہو تو اس مہنگائی کے دور میں یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنی اس معمولی تنخواہ سے وہ اپنا گھر چلا سکتا ہو؟ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں جبکہ ضروریات پوری کرنے کے لئے وہ قرضوں میں جکڑ چکا ہوگا اور قرض اتارتے کی اس میں ہمت تک نہ ہوگی۔یہاں تک کہ ایسے حالات میں میاں بیوی کے آپس میں معاملات بگڑجاتے ہیں اور معاملہ خود کشی تک پہنچ جاتا ہے۔
بجٹ اس موجودہ حکومت کی طرف سے ہو یا پچھلی حکومتوں کا،کسی بجٹ میں مزدور طبقے کے لئے کچھ نہیں رکھا گیاسوائے ماہانہ تنخواہ کم از کم مقرر کر دینے کے۔کوئی حکومتی عہدیدار یہ بتائے کہ مزدور کی کم از کم تنخواہ میں ایک ماہ کا بجٹ کیسے بن سکتا ہے! پرائیوٹ کمپنیوں کے مالکان جو ایک مزدور کو پندرہ سے بھی کم تنخواہ دیتے ہیں یہ ایک ماہ کا بجٹ بنا کر دیکھا دیں! یقینا یہ سب ناکام ہوجائے گے اور منہ چھپاتے نظر آئیں گے۔یکم مئی"مزدوروں کا دن"بھی آگیا ہے لیکن اس خاص دن میں اس کے لیے کچھ نہیں رکھا۔مزدوروں کا استحصال ایک ملک کی بربادی کے لئے کافی ہوتا ہے۔حکومت واقعی ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہے تو مزدور طبقے کوخوشحال کردے،. یقین سے کہتا ہوں حالات بدل جائیں گے اور حقیقی تبدیلی بھی آ جائے گی۔