ن لیگ سے نااہل لیگ کا سفر
۔۔۔۔۔** تحریر : اسرار احمد **۔۔۔۔۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان کے وزیر خارجہ اور مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما خواجہ آصف کو اقامہ رکھنے کے معاملے پر آئین کی شق 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہل قرار دے دیا، نااہلی کے اس سفر کا آغاز مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد میاں نواز شریف کی ڈس کوالیفکیشن سے شروع ہوا تھا، اس سے پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت تاحیات مقرر کی تھی اور اس فیصلے کے بعد سابق وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف پر سیاست میں حصہلینے پر تاحیات پابندی عائد ہوگئی تھی۔
جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے ملکی تاریخ کے اہم ترین کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا، آئین کے تحت نا اہل شخص پارٹی کا صدر نہیں بن سکتا تھا، اس لئے نواز شریف کیلئے پارٹی کی دوبارہ صدارت کا آئینی راستہ ہموار کیا گیا مگر سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونیوالی آئین میں موجود انتخابی شق 203 کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نواز شریف کو پارٹی صدارت کیلئے بھی نااہل قرار دیا۔

نااہلی کے بعد یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھی کہ نواز شریف وقتی طور پر نااہل ہوئے ہیں اور کچھ قانونی ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق نااہلی 5 سال کیلئے تھی لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد واضح ہوگیا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہونیوالی نااہلی تاحیات ہوگی، یہ جولائی 2017 کی بات نہیں بلکہ ماضی میں بھی میاں صاحب 21 سال کیلئے نااہل ہوچکے ہیں، مگر مدت سے پہلے ہی ان کی نا اہلی ختم ہوگئی اور میاں صاحب پھر عوام کے ووٹ کی طاقت سے قومی اسمبلی کے رکن اور وزیراعظم منتخب ہوگئے۔
جنوری 2018 میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ تاحیات نا اہل کردیں، عوام ہمارے ساتھ ہیں، فیصلے کچھ نہیں کرسکتے، اس کا مطلب میاں صاحب ذہنی طور پر تاحیات نااہلی کیلئے تیار تھے، مسلسل نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلوں کے باعث مسلم لیگ ن عوام میں یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ میاں نواز شریف کو زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔

'ن لیگ سے نااہل لیگ کا سفر' مریم نواز کے بغیر ممکن نہیں تھا، مریم نے نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے بعد کہا تھا کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ اس لیے آیا کہ مخالفین کو یقین ہوگیا ہے کہ نواز شریف کو انتخابات میں شکست نہیں دی جاسکتی۔ خواجہ آصف کی تاحیات نااہلی کے بعد بھی مریم نواز کا بیان سامنے آیا، ان کا کہنا ہے کہ عوام خواجہ آصف کے سائے کو بھی ووٹ دیں گے۔
مریم نواز نے پہلے سوشل میڈیا اور پھر مسلم لیگ ن کے سوشل میڈیا کنونشن میں اداروں بالخصوص معزز عدالتوں پر تنقید کا آغاز کیا، میرا مریم نواز کو مشورہ ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کیلئے مزید مشکلات پیدا کرنے اور اداروں کیخلاف تقاریر کے بجائے ان کے احترام کا راستہ اپنائیں۔
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے اپنی تاحیات نااہلی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے، نااہلی کو چیلنج کرنا ان کا قانونی حق ہے مگر کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں، ایسا نہ ہو خواجہ آصف کو 2013ء سے بطور رکن قومی اسمبلی اور بطور وزیر حاصل کی جانی والی مراعات واپس دینی پڑ جائیں کیونکہ فیصلے میں واضح لکھا ہے کہ وہ 2013ء کا الیکشن لڑنے کیلئے بھی اہل نہیں تھے۔

جہاں مسلم لیگ ن کی پوری قیادت حالیہ سیاسی صورتحال سے پریشان ہے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بے حد خوش دکھائی دے رہے ہیں اور اس خوشی کا اظہار خواجہ آصف کی نااہلی کے بعد باقائدہ طور پر سوشل میڈیا پر تصاویر شیئر کرکے کیا گیا، جس میں عمران خان قہقہہ لگا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی سربراہ سیاسی حریف ہیں ان کا خوش ہونا بجا ہے مگر یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ن لیگ کو نااہل لیگ بنانے میں عمران خان سے زیادہ مریم نواز کا کردار ہے۔