کالمز / بلاگ

پوٹھوہارکی وادی ءکہون:آنسوبھی خشک ہوگئے

 

تحریر: نسیم خان ںیازی

بحيثيت قوم کفران نعمت کا کوئي عملي نمونہ ملاحظہ کرنا ہو تو چکوال کي وادي کہون جائيں جہاں قدرتي وسائل اور معدني ذخائر کي تباہي اس طرح عياں ہے '' ديکھو مجھے جو ديدہ عبرت نگاہ ہو '' ۔ مگر افسوسناک بات يہ ہے کہ يہ تباہي صرف ان فيصلہ سازوں کي نظروں سے اوجھل ہے جن کي ذمہ داري اِن پر نظر رکھنا اور ان وسائل کا تحفظ کرنا ہے ۔وادیِ کہون معدنیات کی دولت سے مالا مال خطہ ہے ۔ يہاں پر کوئلہ ، لائم اسٹون، ماربل، راک سالٹ اور جپسم کے ذخائر موجود ہيں ۔ ان ذخائر سے استفادہ کرنے کي بجائے گزشتہ 10 سال کے دوران يہاں قائم سيمنٹ فيکٹريوں نے زير زمين پاني ايسے بے دريغ طريقے سے استعمال کيا کہ يہ پورا علاقہ اب پاني کے بدترين بحران کا سامنا کررہا ہے ۔ فضائي آلودگي ، جنگلات اور پہاڑوں کا خاتمہ اس کے علاوہ ديگر سنگين مسائل ہيں ۔ پاني کي کمي سے نہ صرف لوگوں کو پينے کا پاني دستياب نہيں بلکہ زراعت پر بھي منفي اثرات مرتب ہورہے ہيں ۔ علاقے ميں موجود لوکاٹ کے باغات تباہي کے دہانے پر ہيں ۔ زير زمين پاني جو 120 فٹ گہرائي پر دستياب تھا اب 400 فٹ سے بھي نيچے پہنچ چکا ہے ۔

چکوال ميں صنعتکاروں کي ''ماحولياتي دہشتگردي'' کا نشانہ ہندوؤں کا مقدس مقام '' کٹاس راج مندر کي وہ جھيل بھي بني ہے جو صديوں سے يہاں موجود ہے۔ روايات کے مطابق يہ ہندوؤں کي دوسري مقدس ترين جھيل ہے ۔ روايات بتاتي ہيں کہ ہندوؤں کے شیو دیوتا کی بیوی ستی کا انتقال ہوا تو وہ اتنا روئے کہ آنسوؤں کی ایک نہ ختم ہونے والی لڑی جاری ہو گئی ۔ جس سے دو تالاب ایک پشکار اجمیر میں بنا اور دوسرا کٹاس راج میں بن گيا ۔

 ہندو عقائد کے مطابق يہ جھيل ان کے ليے بہت مقدس ہے جس ميں نہانے سے نہ صرف ان کي گناہ صاف ہوتے ہيں بلکہ وہ بيماريوں سے بھي پاک ہوجاتے ہيں ۔ سيمنٹ فيکٹريوں کي جانب سے پاني نکالنے کي وجہ سے يہ تاريخي تالاب بھي خشک ہوگيا ہے جسے اب واٹر سپلائي پائپ کے ذريعے مصنوعي طريقے سے بھرا جارہا ہے ۔ يہ جھيل چکوال سے پچيس کلو ميٹر جنوب ميں واقع ہے جہاں سات مندر بھي ہيں جو پچيس سو سال پہلے تعمير ہوئے ۔ مناسب ديکھ بھال نہ ہونے کے باعث يہ مندر بھي اب تباہي کا شکار ہيں ۔

اس ساري صورتحال کا ايک اميدا افزا پہلو چيف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا ازخود نوٹس ہے جس کے تحت انہوں نے کٹاس راج مندر کے تالاب کے خشک ہونے سميت خطے ميں ماحولياتي تبديليوں سے متعلق تمام تفصيلات طلب کرلي ہيں ۔ سپريم کورٹ ميں ابتدائي سماعت ميں کئي حيرت انگيز انکشافات ہوئے ۔ دوران سماعت يہ بات بھي سامنے آئي کہ ايک سيمنٹ فيکٹري روزانہ 80 ہزارگيلن پاني استعمال کررہي ہے ۔ سيمنٹ فيکٹريوں کا استعمال کيا جانے والا پاني چکوال کي تمام آبادي کے استعمال کردہ پاني سے تين گنا زيادہ ہے يعني زيرزمين پاني کا 75 فيصد سيمنٹ فيکٹرياں اور صرف 25 فيصد علاقے کے لوگ استعمال کررہے ہيں جس سے زير زمين پاني کي سطح خطرناک حد تک نيچے چلي گئي ہے۔ معزز عدالت نے سيمنٹ فيکٹريوں کو پاني کےليے متبادل ذرائع پر انحصار کي ہدايت کرتے ہوئے ان سے رپورٹ طلب کي ہے اور اميد کي جارہي ہے اب سيمنٹ فيکٹرياں زير زمين پاني کي بجائے دريائے جہلم کے بيٹ سے پاني لانے کي پابند کردي جائيں گي ۔

پاني کے بحران کے علاوہ اہل علاقہ کو کچھ ديگر سنگين ماحولياتي مسائل کا بھي سامنا ہے ۔ فضاؤں میں ہروقت گرد کی تہہ چھائی رہتی ہے جو سانس کي بيماريوں کا باعث ہے ۔ پہاڑ صفحہ ہستي سے مٹ رہے ہيں اور ان پر لگے درخت بھي ختم ہورہے ہيں ۔ پہاڑوں کو توڑنے کےليے دھماکہ خيز مواد کا غيرقانوني استعمال نہ صرف سماعتوں کےليے نقصان دہ ہے بلکہ رہائشي عمارتوں ميں دراڑيں پڑنا بھي معمول ہے ۔ چراگاہيں ختم ہونے سے مويشي پروري ختم ہوکر رہ گئي ہے ۔ غرضيکہ خطے کا پورا نظام زندگي متاثر ہورہا ہے اور ان مسائل کا انجنئيرنگ حل فوري طور پر نکالنا ازحد ضروري ہوگيا ہے ۔ اگر صورتحال يونہي برقرار رہي تو وہ وقت دور نہيں جب علاقے ميں صرف فيکٹرياں ہي باقي رہ جائيں گي اور مقامي آبادي کہيں اور نقل مکاني پر مجبور ہوجائے گي ۔

Katas

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div